مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2598.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے حضرت بریرہ ؓ کو خریدنے کا ارادہ کیا تو اس کے آقاؤں نے یہ شرط لگائی کہ اس کی ولا ان کو حاصل ہوگی۔ نبی کریم ﷺ سے اس کاذکر کیا گیاتو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم خرید کر اسے آزاد کردو، ولا تو اسی کے لیے ہوتی ہے جو آزاد کرے۔‘‘ ایک دفعہ یوں ہوا کہ حضرت بریرہ ؓ کو صدقے کاگوشت ملا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: یہ بریرہ کو بطور صدقہ ملا ہے۔ تب آپ نے فرمایا: ’’یہ اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔‘‘ نیز جب وہ آزاد ہوئی تو خاوند کے معاملے میں اسے اختیار دیاگیا۔ (راوی حدیث) عبدالرحمان نے کہا: اس کا خاوند آزاد تھا یا غلام۔ شعبہ کہتے ہیں: میں نے عبدالرحمان سے اس کے خاوند کے متعلق دریافت کیا توانھوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں کہ وہ آزاد تھا یا غلام۔
تشریح:
حضرت بریرہ ؓ تین شرعی احکام کا ذریعہ بنیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ غلام لونڈی کی ولاء کا حقدار وہی ہے جو اسے آزاد کرے۔ ٭ صدقے کی چیز جب کوئی غریب کسی کو ہدیہ دے تو وہ صدقہ نہیں رہتا بلکہ اس کا حکم بدل جاتا ہے۔ ٭ غلامی سے نجات پا کر شادی شدہ لونڈی کو اختیار ہے کہ وہ خاوند سے علیحدگی اختیار کر سکتی ہے بشرطیکہ اس کا خاوند غلام ہو۔ بہرحال اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہدیہ قبول فرماتے تھے اور اسے اپنے استعمال میں لاتے تھے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2489
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2578
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2578
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2578
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے حضرت بریرہ ؓ کو خریدنے کا ارادہ کیا تو اس کے آقاؤں نے یہ شرط لگائی کہ اس کی ولا ان کو حاصل ہوگی۔ نبی کریم ﷺ سے اس کاذکر کیا گیاتو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم خرید کر اسے آزاد کردو، ولا تو اسی کے لیے ہوتی ہے جو آزاد کرے۔‘‘ ایک دفعہ یوں ہوا کہ حضرت بریرہ ؓ کو صدقے کاگوشت ملا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: یہ بریرہ کو بطور صدقہ ملا ہے۔ تب آپ نے فرمایا: ’’یہ اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔‘‘ نیز جب وہ آزاد ہوئی تو خاوند کے معاملے میں اسے اختیار دیاگیا۔ (راوی حدیث) عبدالرحمان نے کہا: اس کا خاوند آزاد تھا یا غلام۔ شعبہ کہتے ہیں: میں نے عبدالرحمان سے اس کے خاوند کے متعلق دریافت کیا توانھوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں کہ وہ آزاد تھا یا غلام۔
حدیث حاشیہ:
حضرت بریرہ ؓ تین شرعی احکام کا ذریعہ بنیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ غلام لونڈی کی ولاء کا حقدار وہی ہے جو اسے آزاد کرے۔ ٭ صدقے کی چیز جب کوئی غریب کسی کو ہدیہ دے تو وہ صدقہ نہیں رہتا بلکہ اس کا حکم بدل جاتا ہے۔ ٭ غلامی سے نجات پا کر شادی شدہ لونڈی کو اختیار ہے کہ وہ خاوند سے علیحدگی اختیار کر سکتی ہے بشرطیکہ اس کا خاوند غلام ہو۔ بہرحال اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہدیہ قبول فرماتے تھے اور اسے اپنے استعمال میں لاتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا عبدالرحمن بن قاسم سے، شعبہ نے کہا کہ میں نے یہ حدیث عبدالرحمن سے سنی تھی اور انہوں نے قاسم سے روایت کی، انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کہ انہوں نے بریرہ ؓ کو (آزاد کرنے کے لیے) خریدنا چاہا۔ لیکن ان کے مالکوں نے ولاء کی شرط اپنے لیے لگائی۔ جب اس کا ذکر رسول کریم ﷺ سے ہوا تو آپ نے فرمایا، تو انہیں خرید کر آزاد کردے، ولاء تو اسی کے ساتھ قائم ہوتی ہے جو آزاد کرے۔ اور بریرہ ؓ کے یہاں ( صدقہ کا ) گوشت آیا تھا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اچھا یہ وہی ہے جو بریرہ کو صدقہ میں ملا ہے۔ یہ ان کے لیے تو صدقہ ہے لیکن ہمارے لیے ( چونکہ ان کے گھر سے بطور ہد یہ ملا ہے ) ہدیہ ہے اور (آزادی کے بعد بریرہ کو) اختیار دیاگیا تھا (کہ اگر چاہیں تو اپنے نکاح کو فسخ کرسکتی ہیں) عبدالرحمن نے پوچھا بریرہ ؓ کے خاوند (حضرت مغیث ؓ) غلام تھے یا آزاد؟ شعبہ نے بیان کیا کہ میں نے عبدالرحمن سے ان کے خاوند کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں وہ غلام تھے یا آزاد۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): I intended to buy Buraira but her masters stipulated that her Wala should be for them. When the Prophet (ﷺ) was told about it, he said to me, "Buy and manumit her, as the Wala' is for the liberator." Once Buraira was given some meat, and the Prophet (ﷺ) asked, "What is this?" I said, "It has been given to Buraira in charity." He said, "It is sadaqa for her but a gift for us." Buraira was given the option (to stay with her husband or to part with him). AbdurRahman (a sub-narrator) wondered, "Was her husband a slave or a free man?" Shu'ba (another sub-narrator) said, "I asked 'Abdur-Rahman whether her husband was a slave or a free man. He replied that he did not know whether he was a slave or a free man."