قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات و شمائل

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا (بَابُ قَبُولِ الهَدِيَّةِ مِنَ المُشْرِكِينَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: " هَاجَرَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ بِسَارَةَ، فَدَخَلَ قَرْيَةً فِيهَا مَلِكٌ أَوْ جَبَّارٌ، فَقَالَ: أَعْطُوهَا آجَرَ " وَأُهْدِيَتْ لِلنَّبِيِّ ﷺشَاةٌ فِيهَا سُمٌّ وَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: أَهْدَى مَلِكُ أَيْلَةَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَغْلَةً بَيْضَاءَ، وَكَسَاهُ بُرْدًا، وَكَتَبَ لَهُ بِبَحْرِهِمْ

2618. حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا المُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلاَثِينَ وَمِائَةً فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ مَعَ أَحَدٍ مِنْكُمْ طَعَامٌ؟»، فَإِذَا مَعَ رَجُلٍ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ أَوْ نَحْوُهُ، فَعُجِنَ، ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ مُشْرِكٌ، مُشْعَانٌّ طَوِيلٌ، بِغَنَمٍ يَسُوقُهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَيْعًا أَمْ عَطِيَّةً، أَوْ قَالَ: أَمْ هِبَةً؟ ، قَالَ: لاَ بَلْ بَيْعٌ، فَاشْتَرَى مِنْهُ شَاةً، فَصُنِعَتْ، وَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَوَادِ البَطْنِ أَنْ يُشْوَى، وَايْمُ اللَّهِ، مَا فِي الثَّلاَثِينَ وَالمِائَةِ إِلَّا قَدْ حَزَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ حُزَّةً مِنْ سَوَادِ بَطْنِهَا، إِنْ كَانَ شَاهِدًا أَعْطَاهَا إِيَّاهُ، وَإِنْ كَانَ غَائِبًا خَبَأَ لَهُ، فَجَعَلَ مِنْهَا قَصْعَتَيْنِ، فَأَكَلُوا أَجْمَعُونَ وَشَبِعْنَا، فَفَضَلَتِ القَصْعَتَانِ، فَحَمَلْنَاهُ عَلَى البَعِيرِ، أَوْ كَمَا قَالَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ کے ساتھ ہجرت کی تو وہ ایک ایسے شہر میں پہنچے جہاں ایک کافر بادشاہ یا ( یہ کہا کہ ) ظالم بادشاہ تھا۔ اس بادشاہ نے کہا کہ انہیں ( ابراہیمؑ کو ) آجر ( ہاجرہ ) کو دے دو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ( خیبر کے یہ ودیوں کی طرف سے دشمنی میں ) ہد یہ کے طور پر بکری کا ایسا گوشت پیش کیا گیا تھا جس میں زہر تھا۔ ابوحمید نے بیان کیا کہ ایلہ کے حاکم نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں سفید خچر اور چادر ہد یہ کے طور بھیجی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لکھوایا کہ وہ اپنی قوم کے حاکم کی حیثیت سے باقی رہے۔ ( کیوں کہ اس نی جز یہ دینا منظور کرلیا تھا )۔ تشریح : دومۃ الجندل ایک شہر کا نام تھا تبوک کے قریب۔ وہاں کا بادشاہ اکیدر بن عبدالملک بن عبدالجن نصرانی تھا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اسے گرفتار کرکے لائے۔ آنحضرتﷺ نے اسے آزاد فرمادیا کیو ںکہ وہ جزیہ دینے پر راضی ہوگیا تھا۔ اس نے ہدیہ مذکور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کیا تھا۔ کہتے ہیں حضرت سارہ بہت خوبصورت تھیں۔ ان کے حسن و جمال کی تعریف سن کر بادشاہ نے ان کو بلا بھیجا۔ بعض لوگوں نے اس کا نام عمرو بن امرءالقیس بتلایا ہے۔ حضرت ہاجرہ اس کی بیٹی تھیں۔ بادشاہ نے حضرت سارہ کی کرامت دیکھ کر چاہا کہ اس کی بیٹی اس مبارک خاندان میں داخل ہوکر برکتوں سے حصہ پائے۔ حضرت ہاجرہ کو لونڈی باندی کہنا غلط ہے جس کا تفصیلی بیان پیچھے گزر چکا ہے۔ ایلہ نامی مقام مذکورہ مکہ سے مصر جاتے ہوئے سمندر کے کنارے ایک بندرگاہ تھی وہاں کے عیسائی حاکم کا نام یوحنا بن اوبہ تھا۔ ان روایات کے نقل کرنے سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ مشرکین و کفار کے ہدایا کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ ان روایات سے ظاہر ہے۔

2618.

حضرت عبدالرحمان بن ابو بکر  ؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک سو تیس اشخاص نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ کیا تم میں سے کسی کے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟‘‘ پتہ چلا ہے کہ ایک شخص کے پاس ایک صاع کے بقدرآٹا ہے۔ وہ گوندھا گیا۔ اتنے میں ایک لمبا تڑنگا مشرک بکریوں کا ریوڑ ہانکتا ہوا وہاں پہنچا تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا: ’’ہدیہ کے لیے لائے ہو یا فروخت کرنے کاارادہ ہے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں، بلکہ فروخت کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ آپ ﷺ نے اس سے بکری خریدی، اسے ذبح کرکے اس کاگوشت بنایا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ اس کی کلیجی وغیرہ اکھٹی کرکے اس کو بھونا جائے۔ (راوی نے کہا:) اللہ کی قسم! ایک سو تیس میں سے کوئی شخص ایسا باقی نہ رہا جس کو آپ نے کلیجی کا ٹکڑا کاٹ کر نہ دیاہو۔ اگر وہ موجود تھا تو اس کو دیا ورنہ اس کا حصہ رکھ چھوڑا۔ پھر آپ نے گوشت کے دو تھال تیار کیے۔ سب لوگوں نے سیر ہوکر اسے کھایا۔ پھر دوتھالوں میں سے کچھ بچ بھی رہا جسے ہم نے اونٹ پر رکھ لیا۔ أوکماقال۔