مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2644.
عبد اللہ بن عبید اللہ بن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ حضرت صہیب ؓ جو ابن جدعان کے آزاد کردہ غلام تھے، ان کے دوبیٹوں نے دو مکان اور ایک حجرے کے متعلق دعویٰ کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے وہ صہیب ؓ کو دیے تھے۔ مروان نے کہا: تم دونوں کی اس معاملے میں کون گواہی دے گا؟ انھوں نے کہا: ابن عمر ؓ مروان نے ان کو بلایا تو انھوں نے گواہی دی کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ دو مکان اور ایک حجرہ حضرت صہیب ؓ کو دیے تھے، چنانچہ مروان نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی گواہی پر ان کے حق میں فیصلہ کردیا۔
تشریح:
(1) اس مقدمے میں کسی کا دوسرے پر دعویٰ نہیں تھا کہ ایک گواہ سے مقدمے کا فیصلہ کیسے کر دیا گیا؟ بلکہ یہاں صرف حقیقت حال معلوم کرنا تھی، جس کا اظہار ہو گیا۔ (2) واضح رہے کہ اس باب کا کوئی عنوان نہیں بلکہ یہ عنوانِ سابق کا تتمہ ہے۔ مناسبت اس طرح ہے کہ اس میں حضرت صہیب ؓ پر صدقے اور ہبے کا ذکر ہے، جب رسول اللہ ﷺ کا عطیہ ثابت ہو گیا تو مروان نے یہ سوال نہیں کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے رجوع تو نہیں فرمایا؟ کیونکہ ہبہ میں رجوع کا امکان نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ پیش کردہ حدیث سے یہ مسئلہ ثابت کرنا ہو کہ جب موہوب لہ فوت ہو جائے تو بالاتفاق اس سے رجوع حرام ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2532
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2624
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2624
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2624
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
عبد اللہ بن عبید اللہ بن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ حضرت صہیب ؓ جو ابن جدعان کے آزاد کردہ غلام تھے، ان کے دوبیٹوں نے دو مکان اور ایک حجرے کے متعلق دعویٰ کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے وہ صہیب ؓ کو دیے تھے۔ مروان نے کہا: تم دونوں کی اس معاملے میں کون گواہی دے گا؟ انھوں نے کہا: ابن عمر ؓ مروان نے ان کو بلایا تو انھوں نے گواہی دی کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ دو مکان اور ایک حجرہ حضرت صہیب ؓ کو دیے تھے، چنانچہ مروان نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی گواہی پر ان کے حق میں فیصلہ کردیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس مقدمے میں کسی کا دوسرے پر دعویٰ نہیں تھا کہ ایک گواہ سے مقدمے کا فیصلہ کیسے کر دیا گیا؟ بلکہ یہاں صرف حقیقت حال معلوم کرنا تھی، جس کا اظہار ہو گیا۔ (2) واضح رہے کہ اس باب کا کوئی عنوان نہیں بلکہ یہ عنوانِ سابق کا تتمہ ہے۔ مناسبت اس طرح ہے کہ اس میں حضرت صہیب ؓ پر صدقے اور ہبے کا ذکر ہے، جب رسول اللہ ﷺ کا عطیہ ثابت ہو گیا تو مروان نے یہ سوال نہیں کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے رجوع تو نہیں فرمایا؟ کیونکہ ہبہ میں رجوع کا امکان نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ پیش کردہ حدیث سے یہ مسئلہ ثابت کرنا ہو کہ جب موہوب لہ فوت ہو جائے تو بالاتفاق اس سے رجوع حرام ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبردی، کہا کہ مجھے عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملک یہ نے خبر دی کہ ابن جدعان کے غلام بنوصہیب نے دعویٰ کیا کہ دو مکان اور ایک حجرہ نبی کریم ﷺ نے صہیب ؓ کو عنایت فرمایا تھا (جو وراثت میں انہیں ملنا چاہئے) خلیفہ مروان بن حکم نے پوچھا کہ تمہارے حق میں اس دعویٰ پر گواہ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن عمر ؓ۔ مروان نے آپ کو بلایا تو آپ نے گواہی دی کہ واقعی رسول اللہ ﷺ نے صہیب ؓ کو دو مکان اور ایک حجرہ دیا تھا۔ مروان نے آپ کی گواہی پر فیصلہ ان کے حق میں کردیا۔ ’’عمریٰ اور رقبیٰ کے بارے میں روایات‘‘ (اگر کسی نے کہا کہ) میں نے عمر بھر کے لیے تمہیں یہ مکان دے دیا تو اسے عمریٰ کہتے ہیں (مطلب یہ ہے کہ اس کی عمر بھر کے لیے) مکان میں نے اس کی ملکیت میں دے دیا۔ قرآنی لفظ ﴿استعمرَکُم فِیھَا﴾ کا مفہوم یہ ہے کہ اس نے تمہیں زمین میں بسایا۔
حدیث حاشیہ:
صرف عبداللہ بن عمر ؓ کی شہادت پر گو حاکم کو اطمینان ہوسکتا تھا مگر شرعاً ایک آدمی کی شہادت کافی نہیں ہے۔ گواہ کتنا ہی معتبر ہو۔ مروان نے عبداللہ بن عمر ؓ کی شہادت لی ہوگی اور مدعیوں سے قسم، ایک گواہ اور ایک مدعی کی قسم پر فیصلہ کرنا جائز ہے۔ اہل حدیث، شافعی، احمد اور اکثر علماء کا یہی قول ہے، حنفیہ اس کو جائز نہیں رکھتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Asma' bint Abu Bakr (RA): My mother came to me during the lifetime of Allah's Messenger (ﷺ) and she was a Mushrikah (polytheist, idolatress, pagan). I said to Allah's Messenger (ﷺ) (seeking his verdict), "My mother has come to and she desires to receive a reward from me, shall I keep good relations with her"? The Prophet (ﷺ) said, "Yes, keep good relation with her".