Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: The superiority of the Maniha)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2652.
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم میں سے کچھ لوگوں کے پاس فالتو زمینیں تھیں تو وہ آپس میں یوں گفتگو کرتے تھے کہ ہم ان زمینوں کو تہائی، چوتھائی یا نصف پیداوار پر کاشت کے لیے دیں گے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جس کے پاس زمین ہے وہ خود کاشت کرے یا اپنے بھائی کو بطور عطیہ مستعار دے دے۔ اگر اسے یہ منظور نہیں تو اپنی زمین اپنے ساتھ باندھ رکھے۔‘‘
تشریح:
(1) دراصل جب مہاجرین کی مدینہ طیبہ آمد ہوئی تو زمینوں کی قدروقیمت میں اضافہ ہو گیا۔ جو زمینیں آباد تھیں ان کے متعلق بٹائی کا طریقہ اختیار کیا گیا تاکہ مہاجرین دوسروں پر بوجھ نہ بنیں اور محنت کر کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں، اس کے علاوہ کچھ زمینیں غیر آباد تھیں جنہیں فالتو زمینیں کہا گیا ہے۔ زمیندار پانی کی قلت یا کسی اور وجہ سے انہیں آباد نہیں کر پاتا۔ یہ زمینیں قابل زراعت تو ہوتی ہیں، ایسی زمینوں کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے مشورہ دیا کہ زمینوں کو مالک خود آباد کرے یا آنے والوں کو بطور منیحہ (عطیہ) دے تاکہ وہ انہیں آباد کریں۔ منیحہ میں وہ چیز اصل مالک کو واپس کرنا ہوتی ہے۔ یہ انصاف کا تقاضا ہے کہ ایسی زمینیں مناسب موقع پر واپس کر دی جائیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے منیحہ کے درخت غزوۂ خیبر کے بعد واپس کر دیے تھے۔ (2) ان احادیث کے پیش نظر اشتراکیت کے حق میں یہ فتویٰ دینا محل نظر ہے کہ زمینداری نظام حرام ہے یا غیر حاضر مالک زمین کا اسلام میں کوئی وجود نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو شوق دلایا کہ وہ اپنی فالتو زمینیں آباد کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کریں ورنہ زمینیں اپنی کمر کے ساتھ باندھ لیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2540
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2632
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2632
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2632
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم میں سے کچھ لوگوں کے پاس فالتو زمینیں تھیں تو وہ آپس میں یوں گفتگو کرتے تھے کہ ہم ان زمینوں کو تہائی، چوتھائی یا نصف پیداوار پر کاشت کے لیے دیں گے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جس کے پاس زمین ہے وہ خود کاشت کرے یا اپنے بھائی کو بطور عطیہ مستعار دے دے۔ اگر اسے یہ منظور نہیں تو اپنی زمین اپنے ساتھ باندھ رکھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) دراصل جب مہاجرین کی مدینہ طیبہ آمد ہوئی تو زمینوں کی قدروقیمت میں اضافہ ہو گیا۔ جو زمینیں آباد تھیں ان کے متعلق بٹائی کا طریقہ اختیار کیا گیا تاکہ مہاجرین دوسروں پر بوجھ نہ بنیں اور محنت کر کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں، اس کے علاوہ کچھ زمینیں غیر آباد تھیں جنہیں فالتو زمینیں کہا گیا ہے۔ زمیندار پانی کی قلت یا کسی اور وجہ سے انہیں آباد نہیں کر پاتا۔ یہ زمینیں قابل زراعت تو ہوتی ہیں، ایسی زمینوں کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے مشورہ دیا کہ زمینوں کو مالک خود آباد کرے یا آنے والوں کو بطور منیحہ (عطیہ) دے تاکہ وہ انہیں آباد کریں۔ منیحہ میں وہ چیز اصل مالک کو واپس کرنا ہوتی ہے۔ یہ انصاف کا تقاضا ہے کہ ایسی زمینیں مناسب موقع پر واپس کر دی جائیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے منیحہ کے درخت غزوۂ خیبر کے بعد واپس کر دیے تھے۔ (2) ان احادیث کے پیش نظر اشتراکیت کے حق میں یہ فتویٰ دینا محل نظر ہے کہ زمینداری نظام حرام ہے یا غیر حاضر مالک زمین کا اسلام میں کوئی وجود نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو شوق دلایا کہ وہ اپنی فالتو زمینیں آباد کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کریں ورنہ زمینیں اپنی کمر کے ساتھ باندھ لیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عطاءنے بیان کیا، ان سے جابر ؓ نے بیان کیا کہ ہم میں سے بہت سے اصحاب کے پاس فالتو زمین بھی تھی، انہوں نے کہا تھا کہ تہائی یا چوتھائی یا نصف کی بٹائی پر ہم کیوں نہ اسے دے دیا کریں۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس کے پاس زمین ہو تو اسے خود بونی چاہئے یا پھر کسی اپنے بھائی کو ہدیہ کردینی چاہئے اور اگر ایسا نہیں کرتا تو پھر زمین اپنے پاس رکھے رہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir (RA): Some men had superfluous land and they said that they would give it to others to cultivate on the condition that they would get one-third or one-fourth or one half of its yield. The Prophet (ﷺ) said, "Whoever has land should cultivate it himself or give it to his brother or keep it uncultivated."