Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: The superiority of the Maniha)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2653.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک دیہاتی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے ہجرت کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’تیرا بھلا ہو!ہجرت کا معاملہ بہت کٹھن ہے۔ یہ بتاؤتمھارے پاس اونٹ ہیں؟‘‘ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے پوچھا: ’’ان کی زکاۃ دیتے ہو؟‘‘ اس نے ہاں میں جواب دیا۔ آپ نے پھر پوچھا: ’’ان میں سے کچھ عطیہ بھی دیتے ہو؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں۔ پھر آپ نےدریافت کیا: ’’ کیا پانی پلانے کے دن جب گھاٹ پر لے جاتے ہو تو دودھ دوہ کر تقسیم کرتے ہو؟‘‘ اس نے کہا: ہاں۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’جب تیرا یہ حال ہے تو پھر تو شہروں اور بستیوں (اپنے علاقے) میں رہ کر عمل کرتا رہ۔ اللہ تعالیٰ تیری نیکی میں کوئی کمی نہیں فرمائے گا۔‘‘
تشریح:
(1) عرب کے ہاں منیحہ کی دو قسمیں ہیں؛ ایک یہ کہ آدمی بطور انعام کسی کو کوئی چیز دے اور وہ اسی کی ہو جائے۔ دوسری یہ ہے کہ کوئی بکری یا اونٹنی صرف دودھ کے لیے کسی کو دے دے۔ وہ کچھ مدت تک اس کی اون اور دودھ استعمال کرے، پھر اصل مالک کو واپس کر دے۔ (2) اس حدیث میں مؤخر الذکر منیحہ کا بیان اور اس کی فضیلت ہے، چنانچہ ایک دیہاتی نے دوسرے مہاجرین کی طرح اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ طیبہ میں رہنا چاہا تو آپ نے اسے روک دیا کیونکہ آپ کو اندازہ تھا کہ یہ ہجرت کی سختیوں کو برداشت نہیں کر سکے گا، اس لیے فرمایا: ’’اپنے گھر میں رہ کر نیکی کے کام کرتے رہو، تیرے لیے یہی کافی ہے۔‘‘ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ فتح مکہ کے بعد کا ہے جب مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کی فرضیت ختم ہو چکی تھی۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2541
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2633
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2633
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2633
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک دیہاتی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے ہجرت کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’تیرا بھلا ہو!ہجرت کا معاملہ بہت کٹھن ہے۔ یہ بتاؤتمھارے پاس اونٹ ہیں؟‘‘ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے پوچھا: ’’ان کی زکاۃ دیتے ہو؟‘‘ اس نے ہاں میں جواب دیا۔ آپ نے پھر پوچھا: ’’ان میں سے کچھ عطیہ بھی دیتے ہو؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں۔ پھر آپ نےدریافت کیا: ’’ کیا پانی پلانے کے دن جب گھاٹ پر لے جاتے ہو تو دودھ دوہ کر تقسیم کرتے ہو؟‘‘ اس نے کہا: ہاں۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’جب تیرا یہ حال ہے تو پھر تو شہروں اور بستیوں (اپنے علاقے) میں رہ کر عمل کرتا رہ۔ اللہ تعالیٰ تیری نیکی میں کوئی کمی نہیں فرمائے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) عرب کے ہاں منیحہ کی دو قسمیں ہیں؛ ایک یہ کہ آدمی بطور انعام کسی کو کوئی چیز دے اور وہ اسی کی ہو جائے۔ دوسری یہ ہے کہ کوئی بکری یا اونٹنی صرف دودھ کے لیے کسی کو دے دے۔ وہ کچھ مدت تک اس کی اون اور دودھ استعمال کرے، پھر اصل مالک کو واپس کر دے۔ (2) اس حدیث میں مؤخر الذکر منیحہ کا بیان اور اس کی فضیلت ہے، چنانچہ ایک دیہاتی نے دوسرے مہاجرین کی طرح اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ طیبہ میں رہنا چاہا تو آپ نے اسے روک دیا کیونکہ آپ کو اندازہ تھا کہ یہ ہجرت کی سختیوں کو برداشت نہیں کر سکے گا، اس لیے فرمایا: ’’اپنے گھر میں رہ کر نیکی کے کام کرتے رہو، تیرے لیے یہی کافی ہے۔‘‘ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ فتح مکہ کے بعد کا ہے جب مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کی فرضیت ختم ہو چکی تھی۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے اوزاعی نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عطاءبن یزید نے بیان کیا اور ان سے ابوسعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے ہجرت کے لیے پوچھا۔ آپ نے فرمایا، خدا تم پر رحم کرے۔ ہجرت کا تو بڑا ہی دشوار معاملہ ہے۔ تمہارے پاس اونٹ بھی ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں ! آپ نے دریافت فرمایا، اور اس کا صدقہ (زکوٰۃ) بھی ادا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا جی ہاں ! آپ نے دریافت فرمایا، اس میں سے کچھ ہدیہ بھی دیتے ہو؟ انہوں نے کہا جی ہاں ! آپ نے دریافت فرمایا، تو تم اسے پانی پلانے کے لیے گھاٹ پر لے جانے والے دن دوہتے ہوگے؟ انہوں نے کہا جی ہاں ! پھر آپ نے فرمایا کہ سمندروں کے پار بھی اگر تم عمل کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے عمل میں سے کوئی چیز نہیں چھوڑے گا۔
حدیث حاشیہ:
ایک دیہاتی نے دیگر مہاجرین کی طرح اپنا ملک چھوڑ کر مدینہ میں رہنا چاہا آپ ﷺ جانتے تھے کہ اس سے ہجرت نہ نبھ سکے گی۔ اس لیے آپ نے فرمایا کہ اپنے ملک میں رہ کر نیک کام کرتا رہ، یہی کافی ہے۔ یہ واقعہ فتح مکہ کے بعد کا ہے جب کہ ہجرت فرض نہیں رہی تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Said (RA): A bedouin came to the Prophet (ﷺ) and asked him about emigration. The Prophet (ﷺ) said to him, "May Allah be merciful to you. The matter of emigration is difficult. Have you got some camels?" He replied in the affirmative. The Prophet (ﷺ) asked him, "Do you pay their Zakat?" He replied in the affirmative. He asked, "Do you lend them so that their milk may be utilized by others?" The bedouin said, "Yes." The Prophet (ﷺ) asked, "Do you milk them on the day off watering them?" He replied, "Yes." The Prophet (ﷺ) said, "Do good deeds beyond the merchants (or the sea) and Allah will never disregard any of your deeds." (See Hadith No. 260, Vol. 5)