تشریح:
1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس کے اندرونی حالات کا علم نہ ہو اسے مسلم تو کہہ سکتے ہیں کیونکہ اسلام کا تعلق ظاہری اعمال سے ہے لیکن اسے مومن نہیں کہنا چاہیے کیونکہ یہ باطن کا معاملہ ہے، اس پر اللہ کے سوا اور کون مطلع ہو سکتا ہے؟ یا پھر یہ پیغمبر کا منصب ہے کہ وہ بذریعہ وحی باطنی احوال سے واقف ہو سکتا ہے۔ دوسرے اس کی تعبیریوں بھی ہو سکتی ہے کہ ہر مسلمان کے دو احوال ہیں ایک کا تعلق باطن سے ہے اور دوسرے کا ظاہر سے۔ ایمان یہ باطنی امر ہے جس کا واقعی علم اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں ہو سکتا وہی کسی کو بتادے تو دوسری بات ہے۔ البتہ کسی کے ظاہری احوال کو دیکھ کر کہ وہ متشرع ہے نماز روزے کا پابند ہے، کہا جا سکتا ہے کہ یہ پکا مسلمان ہے۔
2۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ چھوٹوں کو بڑوں کی خدمت میں سفارش کرنے کا حق ہے بڑوں کو اختیار ہے کہ وہ قبول کریں یا رد کردیں۔ نیز اگر سفارش کا طریق قابل اصلاح ہو تو اس مجلس میں مناسب طریقے سے بتا دینا چاہیے اور سفارش کنندہ کی تسلی اور اطمینان خاطر کے لیے وجہ بھی بیان کر دینی چاہیے۔
3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اللہ کے ہاں نجات دہندہ اور غیر نجات دہندہ اسلام کی تفریق کرنا چاہتے ہیں کہ باعث نجات وہ اسلام ہے جو دل کی گہرائی اور سچی نیت سے ہو اور ایمان کے مترادف ہو جو اسلام محض نمائشی ہوگا۔ وہ دنیا وی مفادات کے تحفظ کے لیے تو کام آسکتا ہے مگر آخرت میں نجات کا باعث نہیں ہو سکتا۔ حاصل یہ کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسلام کے دو معنی بتا کر اسلام اور ایمان کے متعلق جو مغایرت معلوم ہوتی تھی اس کی وضاحت کردی ہے کہ اسلام شرعی اور ایمان حقیقی میں کوئی مغایرت نہیں البتہ وہ اسلام جو محض نمائشی ہو اس کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔