تشریح:
(1) اس سے پہلے امام بخاری ؒ نے ایک عنوان قائم کیا تھا: (ما يجوز من شروط المكاتب، ومن اشترط شرطا ليس في كتاب الله) ’’مکاتب کے لیے کون کون سی شرائط جائز ہیں اور جو شخص ایسی شرط لگائے جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہے‘‘ (صحیح البخاري،المکاتب،باب:2) اس مقام پر آپ اس کی تفسیر اس طرح کرنا چاہتے ہیں کہ وہ شرائط جو کتاب اللہ کے مخالف ہوں ناقابل اعتبار ہیں۔ اور کتاب اللہ سے مراد اس کا حکم ہے جو کبھی نص سے ثابت ہوتا ہے اور کبھی اس سے استنباط کیا جاتا ہے۔ جو حکم اس طرح کا نہ ہو وہ کتاب اللہ کے مخالف ہے، چنانچہ حضرت بریرہ ؓ کے آقا آزادی کے بعد اس کی ولا اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے اور اس شرط کے ساتھ وہ حضرت عائشہ ؓ کی پیشکش کے مطابق اسے آزاد کرنا چاہتے تھے۔ چونکہ یہ شرط کتاب اللہ کے مخالف تھی اس بنا پر اسے باطل قرار دیا گیا۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص غلط شرط لگاتا ہے تو وہ شرعاً باطل ہے۔ قانون اسے تسلیم نہیں کرے گا۔