Sahi-Bukhari:
Wills and Testaments (Wasaayaa)
(Chapter: A legal heir has no right to inherit through a will)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2767.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ابتدائے اسلام میں مال، اولاد کے لیے تھا اور والدین کے لیے وصیت تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سے جو چاہا منسوخ کردیا اور مذکر کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ قرار دیا، ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا چھٹا حصہ مقرر کردیا، نیز بیوی کو آٹھواں یاچوتھا اورشوہر کو نصف یا چوتھا حصہ دیا۔
تشریح:
(1) قرآن کریم میں ہے: ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿١٨٠﴾) ’’جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اور وہ کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر والدین اور رشتے داروں کے حق میں وصیت کرنا تم پر فرض کر دیا گیا ہے۔‘‘ (البقرة:180:2) اس کے بعد مذکورہ بالا حدیث یا آیت میراث کے ذریعے سے والدین کے لیے وصیت کو منسوخ کر دیا گیا اور والدین کے لیے باقاعدہ حصہ مقرر کر دیا گیا کہ اولاد ہونے کی صورت میں انہیں چھٹا چھٹا حصہ دیا جائے گا۔ گویا وراثت اور وصیت دونوں والدین کے لیے جمع نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح وارث کے لیے وصیت اور وراثت دونوں جمع نہیں ہوں گے۔ جیسے والدین کے لیے وصیت کو منسوخ کر دیا اسی طرح وارث کے لیے بھی وصیت کو منسوخ کر دیا۔ (2) اس بات پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ اگر کسی نے اپنے بھائی کے لیے وصیت کی جبکہ اس کا کوئی بیٹا نہ ہو جو بھائی کے لیے وراثت سے محرومی کا باعث ہے، پھر موصی کے مرنے سے پہلے پہلے اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو بھائی کے لیے وصیت جائز ہو گی کیونکہ اب وہ ترکے سے حصہ نہیں لے سکتا۔ بیٹے کی پیدائش سے پہلے اس کے لیے وصیت جائز نہیں تھی کیونکہ اس صورت میں وہ ترکے میں حق دار تھا۔ اسی طرح اگر کسی نے اپنے بھائی کے لیے وصیت کی جبکہ اس کا بیٹا بھی موجود تھا، پھر اتفاق سے موصی کی وفات سے پہلے پہلے اس کے بیٹے کا انتقال ہو گیا تو اس صورت میں بھائی کے لیے وصیت جائز نہیں ہو گی کیونکہ بیٹے کے فوت ہونے پر بھائی عصبہ ہونے کی حیثیت سے وارث بن گیا اور وارث کے لیے وصیت جائز نہیں۔ (فتح الباري:457/5) حضرت ابن عباس ؓ سے مروی حدیث میں ورثاء کے لیے حصوں کی وضاحت ہم آئندہ کتاب الفرائض میں کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2647
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2747
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2747
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2747
تمہید کتاب
وصايا، وصيت کی جمع ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی جانشین بنانے اور تاکید کرنے کے ہیں۔ اس کا اطلاق وصیت کرنے والے کے فعل پر بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کے مصدری معنی مراد ہوتے ہیں۔ اور اس مال پر بھی بولا جاتا ہے جس کے متعلق وصیت کرنے والا وصیت کر جائے۔ اس صورت میں اسم مصدر ہو گا۔ شرعی طور پر وصیت اس خاص عہد کا نام ہے جس کی نسبت مرنے کے بعد کسی کام کی طرف کی گئی ہو، اور اس کا مدار حصول ثواب اور احسان پر ہوتا ہے۔ وصیت کرنے والے کو موصی اور جس کے لیے وصیت کی جائے اس کو موصی لہ اور جس کو کسی کے لیے وصیت کی جائے اس کو وصی کہا جاتا ہے۔ وصی کی حیثیت ایک امین کی ہوتی ہے، اس لیے اسے موصی کے مال اور جائیداد میں اسی طرح تصرف کرنا چاہیے جس طرح وہ کہہ گیا ہو یا جس طرح وہ اپنے مال و جائیداد میں تصرف کرتا تھا۔ شریعت میں وصیت کو تین لغوی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے:(1) کسی کو اچھے کام کرنے اور برے کام چھوڑنے کی تاکید کرنا۔ اسے اخلاقی وصیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(2) کسی کو اپنی زندگی ہی میں اپنے مرنے کے بعد کسی کام کی ذمہ داری سونپنا۔ اسے معاشرتی وصیت کہا جاتا ہے۔(3) کسی غیر وارث کو اپنی جائیداد سے 13 یا اس سے کم کی ہدایت و تاکید کر جانا۔ اسے مالی وصیت کا نام دیا جاتا ہے۔ مذکورہ عنوان کے تحت اس آخری قسم کی وصیت کا ذکر ہو گا۔اس مالی وصیت میں ایک کی طرف سے دوسرے کو انتقال ملکیت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک انتقال ملکیت کی دو قسمیں ہیں: ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری ملکیت اگر معاوضے سے ہے تو اسے خریدوفروخت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر معاوضے کے بغیر ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں معاوضے کے بغیر اپنی کوئی چیز دوسرے کی ملک میں دے دے۔ اسے ہبہ یا عطیہ کہا جاتا ہے۔ اگر مرنے کے بعد عمل میں آئے تو اسے وصیت کہتے ہیں۔ غیر اختیاری انتقال ملکیت وراثت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ دین اسلام میں وصیت کا ایک ضابطہ ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ ابتدائے اسلام میں وصیت فرض تھی کیونکہ دور جاہلیت میں وراثت ان مردوں کو ملتی تھی جو جنگ میں جانے کے قابل ہوتے۔ بوڑھوں، بچوں، عورتوں، یتیموں اور بیواؤں کو ترکے سے کچھ نہیں ملتا تھا۔ قرآن کریم نے حکم دیا کہ مرنے والا اپنے والدین، یتیموں، بیواؤں اور اپنے غریب رشتے داروں کو کچھ دینے کی وصیت ضرور کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿١٨٠﴾) "تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اور وہ کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر والدین اور رشتے داروں کے حق میں وصیت کر جائے۔ یہ وصیت کرنا متقی لوگوں پر فرض ہے۔" (البقرۃ180:2) اس کے بعد وراثت کی تقسیم کا مفصل ضابطہ نازل ہوا تو وصیت کی فرضیت کو استحباب میں بدل دیا گیا۔٭ مرنے کے بعد تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد اگر کچھ بچ رہے تو وصیت پر عمل کیا جائے، بصورت دیگر وصیت نافذ العمل نہیں ہو گی۔٭ انسان کو اپنے مال یا جائیداد سے 13 حصے کی وصیت کرنے کا حق ہے۔ اس سے زیادہ وصیت کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے۔ اگر کوئی اس سے زیادہ کی وصیت کرتا ہے تو تہائی کے اندر ہی اس کی وصیت پوری کی جائے کیونکہ اس سے زیادہ کی وصیت کرنا دوسرے ورثاء کی حق تلفی ہے، اگر ورثاء اجازت دیں تو الگ بات ہے۔٭ جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے وہ شرعی طور پر میت کے ترکے کا وارث نہ ہو کیونکہ اس نے ترکے سے حصہ لینا ہے، اسے دوہرا حصہ دینے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔٭ وصیت کسی ناجائز کام کے لیے نہ ہو۔ اگر کسی حرام یا مکروہ کام کی وصیت ہے تو اسے پورا نہیں کیا جائے گا، مثلاً: مرنے والے نے وصیت کی کہ مجھے ریشمی کفن دیا جائے یا میری قبر کو پختہ بنایا جائے یا دھوم دھام سے چہلم کیا جائے تو اس صورت میں وصیت پر عمل نہیں ہو گا کیونکہ ان میں کوئی چیز بھی شریعت کی رو سے جائز نہیں۔٭ ایسی وصیت بھی کالعدم ہو گی جس کے ذریعے سے کسی وارث کی حق تلفی ہوتی ہو یا اسے نقصان ہوتا ہو۔ قرآن کریم میں وصیت اور قرض کی ادائیگی کا حکم بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وراثت کی تقسیم وصیت کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی بشرطیکہ وہ قرض اور وصیت کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔" (النساء12:4)٭ اگر کوئی شخص غلط یا ناجائز وصیت کر جائے تو پسماندگان کا فرض ہے کہ وہ اس کی اصلاح کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ) "پس جو شخص کسی وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی قسم کی جانبداری یا گناہ سے ڈرے تو وہ وارثان کے درمیان اصلاح کرا دے، اس طرح اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔" (البقرۃ182:2)٭ وصیت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عاقل اور بالغ ہو۔ پورے ہوش و حواس سے وصیت کرے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بچہ یا پاگل وصیت کرے گا تو وہ بے کار ہو گی۔ اسی طرح جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اسے اپنی وصیت سے رجوع کر لینے کا حق باقی ہے۔ اگر کسی نے زبان سے رجوع نہیں کیا مگر اس نے کوئی ایسا طرز عمل اختیار کیا جس سے ثابت ہو کہ اس نے رجوع کر لیا ہے تو بھی وصیت کالعدم ہو جائے گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے وصیت کے سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ چونکہ وقف بھی وصیت کی ایک قسم ہے، اس لیے انہوں نے وقف کے آداب و شرائط کی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ساٹھ مرفوع احادیث اور بائیس آثار پیش کیے ہیں۔ مرفوع احادیث میں سے اٹھارہ معلق ہیں اور اڑتالیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں بیالیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مصالح عباد پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس سے آپ کی وسعت علم اور گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی گئی احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت سے نوازے اور ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔ ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم (آمين)
تمہید باب
یہ عنوان دراصل ایک مرفوع حدیث ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط کے مطابق نہ تھی، اسے حسب عادت عنوان بنا دیا۔ اس حدیث کو بہت سے صحابۂ کرام ؓ نے روایت کیا ہے حتی کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس کے متواتر ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ الفاظ یہ ہیں: (إن الله عزوجل أعطی كل ذي حق حقه فلا وصية لوارث) "بےشک اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق عطا فرما دیا ہے، لہذا اب کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں۔" (جامع الترمذی،الوصایا،حدیث:2121) ایک روایت میں ہے: (لا تجوز وصيه لوارث إلا أن يشاء الورثة) "وارث کے لیے وصیت جائز نہیں، ہاں اگر ورثاء راضی ہوں تو جائز ہے۔" (سنن الدارقطنی:2/37) مگر یہ روایت منکر اور ضعیف ہے۔ دیکھیے: (الارواء: 6/96)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ابتدائے اسلام میں مال، اولاد کے لیے تھا اور والدین کے لیے وصیت تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سے جو چاہا منسوخ کردیا اور مذکر کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ قرار دیا، ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا چھٹا حصہ مقرر کردیا، نیز بیوی کو آٹھواں یاچوتھا اورشوہر کو نصف یا چوتھا حصہ دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) قرآن کریم میں ہے: ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿١٨٠﴾) ’’جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اور وہ کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر والدین اور رشتے داروں کے حق میں وصیت کرنا تم پر فرض کر دیا گیا ہے۔‘‘ (البقرة:180:2) اس کے بعد مذکورہ بالا حدیث یا آیت میراث کے ذریعے سے والدین کے لیے وصیت کو منسوخ کر دیا گیا اور والدین کے لیے باقاعدہ حصہ مقرر کر دیا گیا کہ اولاد ہونے کی صورت میں انہیں چھٹا چھٹا حصہ دیا جائے گا۔ گویا وراثت اور وصیت دونوں والدین کے لیے جمع نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح وارث کے لیے وصیت اور وراثت دونوں جمع نہیں ہوں گے۔ جیسے والدین کے لیے وصیت کو منسوخ کر دیا اسی طرح وارث کے لیے بھی وصیت کو منسوخ کر دیا۔ (2) اس بات پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ اگر کسی نے اپنے بھائی کے لیے وصیت کی جبکہ اس کا کوئی بیٹا نہ ہو جو بھائی کے لیے وراثت سے محرومی کا باعث ہے، پھر موصی کے مرنے سے پہلے پہلے اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو بھائی کے لیے وصیت جائز ہو گی کیونکہ اب وہ ترکے سے حصہ نہیں لے سکتا۔ بیٹے کی پیدائش سے پہلے اس کے لیے وصیت جائز نہیں تھی کیونکہ اس صورت میں وہ ترکے میں حق دار تھا۔ اسی طرح اگر کسی نے اپنے بھائی کے لیے وصیت کی جبکہ اس کا بیٹا بھی موجود تھا، پھر اتفاق سے موصی کی وفات سے پہلے پہلے اس کے بیٹے کا انتقال ہو گیا تو اس صورت میں بھائی کے لیے وصیت جائز نہیں ہو گی کیونکہ بیٹے کے فوت ہونے پر بھائی عصبہ ہونے کی حیثیت سے وارث بن گیا اور وارث کے لیے وصیت جائز نہیں۔ (فتح الباري:457/5) حضرت ابن عباس ؓ سے مروی حدیث میں ورثاء کے لیے حصوں کی وضاحت ہم آئندہ کتاب الفرائض میں کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا ورقاءسے‘ انہوں نے ابن ابی نجیح سے‘ ان سے عطاء نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ شروع اسلام میں (میراث کا) مال اولاد کو ملتا تھا اور والدین کے لئے وصیت ضروری تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے جس طرح چاہا اس حکم کو منسوخ کر دیا پھر لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر قرار دیا اور والدین میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ اور بیوی کا (اولاد کی موجودگی میں) آٹھواں حصہ اور (اولاد کے نہ ہونے کی صورت میں) چوتھا حصہ قراردیا۔ اسی طرح شوہر کا (اولاد نہ ہونے کی صورت میں) آدھا (اولاد ہونے کی صورت میں) چوتھائی حصہ قرار دیا۔
حدیث حاشیہ:
اس صور ت میں وصیت کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): The custom (in old days) was that the property of the deceased would be inherited by his offspring; as for the parents (of the deceased), they would inherit by the will of the deceased. Then Allah cancelled from that custom whatever He wished and fixed for the male double the amount inherited by the female, and for each parent a sixth (of the whole legacy) and for the wife an eighth or a fourth and for the husband a half or a fourth.