تشریح:
ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: ’’جو انسان سمندر میں طغیانی کے وقت سفر کرے تو اس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔۔اگر اسے نقصان ہوتو خود کو ملامت کرے۔‘‘ (مسند أحمد271/5 و سلسلة الأحادیث الصحیحة:472/2، حدیث 828) اس حدیث کے پیش نظر بعض اہل علم نے سمندری سفر کو جائز قرارنہیں دیا۔ امام مالک ؒنے عورت کے لیے مطلق طور پر سمندر میں سفرکرنا ناجائز کہا ہے،حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ﴾ ’’وہی ذات ہے جو تمھیں خشکی اور سمندر میں سفرکرنے کی توفیق دیتی ہے۔‘‘ (یونس:22/10) امام بخاری ؒنےاس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ جہاد کےلیے سمندر میں سفر کرنا جائز ہے اور اس میں مردوں اور عورتوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ اس طرح حج کے لیے بھی مردوں اور عورتوں کاسمندری سفر جائز ہے۔ دونوں روایات میں تطبیق یوں ہوگی کہ منع اس صورت میں ہے جب سمندر میں طغیانی ہویا بلاوجہ سفر ہو۔ جہاد کے لیے یا تجارتی مقاصد کے لیے سفر جائز ہوگا۔ اس حدیث میں صراحت ہے کہ ام حرام ؓنے جہاد کے لیے سمندری سفر کیا۔ یہ سفر حضرت عثمان ؓکے دور حکومت میں ہوا جب مسلمانوں نے حضرت امیر معاویہ ؓ کی کمان میں روم پرحملہ کرکے اسے فتح کیا۔۔۔ رضوان اللہ عنھم أجمعین ۔۔۔