تشریح:
1۔بحرین کے گورنر کے پاس رسول اللہ ﷺ کا خط لے جانے والے حضرت عبد اللہ بن حذافہ سہمی ؓ تھے۔کسریٰ کو خط پہنچانے کا طریقہ یہی تھا کہ پہلے اس کے گورنر دیا جائے،پھر وہ خود شاہ ایران کو پہنچائے جب کسریٰ نے رسول اللہ ﷺ کا خط پھاڑ دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق بددعا فرمائی کہ اس نے میرا خط نہیں پھاڑا بلکہ خود کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے۔ چنانچہ وہ خود اور اس کی حکومت پاش پاش ہو گئی۔ آخر کار اہل فارس نے ایک عورت کو اپنا سر براہ بنایا تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو گی جس نے حکومت کے معاملات عورت کے سپرد کر دیے۔‘‘ چنانچہ حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں ایران کا آتش کدہ بجھا کر وہاں اسلامی پرچم لہرادیا گیا۔ 2۔رسول اللہ ﷺنے پہلے اہل فارس کو دعوتی خط لکھا پھر ان سے جہاد کیا۔ امام بخاری ؒ کا موقف بھی یہی ہے کہ پہلے دعوت اسلام دی جائے۔اگر غیر مسلم اسے قبول نہ کریں تو پھر ان سے جہاد و قتال کیا جائے جبکہ بعض کا خیال ہے کہ اب دعوت اسلام پھیل چکی ہے لہٰذا اب قتال ہی ہو گا۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں۔ جس کی رہائش دارالاسلام سے دور ہے اسے تو دعوت دی جائے لیکن قریب رہنے والے کو دعوت کی ضرورت نہیں۔ بہر حال جن لوگوں کو دعوت نہیں پہنچی ان کے ساتھ اس دعوت سے پہلے جنگ وقتال جائز نہیں جب تک انھیں دعوت دے کر اتمام حجت نہ کردی جائے۔ واللہ أعلم۔