قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ دُعَاءِ النَّبِيِّ ﷺ النَّاسَ إِلَى الإِسْلاَمِ وَالنُّبُوَّةِ وَأَنْ لاَ يَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ )

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الكِتَابَ} [آل عمران: 79] إِلَى آخِرِ الآيَةِ

2941. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَأَخْبَرَنِي أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ أَنَّهُ كَانَ بِالشَّأْمِ فِي رِجَالٍ مِنْ قُرَيْشٍ قَدِمُوا تِجَارًا فِي المُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كُفَّارِ قُرَيْشٍ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ، فَوَجَدَنَا رَسُولُ قَيْصَرَ بِبَعْضِ الشَّأْمِ، فَانْطُلِقَ بِي وَبِأَصْحَابِي، حَتَّى قَدِمْنَا إِيلِيَاءَ، فَأُدْخِلْنَا عَلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ فِي مَجْلِسِ مُلْكِهِ، وَعَلَيْهِ التَّاجُ، وَإِذَا حَوْلَهُ عُظَمَاءُ الرُّومِ، فَقَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: سَلْهُمْ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَقُلْتُ أَنَا أَقْرَبُهُمْ إِلَيْهِ نَسَبًا، قَالَ: مَا قَرَابَةُ مَا بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ؟ فَقُلْتُ: هُوَ ابْنُ عَمِّي، وَلَيْسَ فِي الرَّكْبِ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ غَيْرِي، فَقَالَ قَيْصَرُ: أَدْنُوهُ، وَأَمَرَ بِأَصْحَابِي، فَجُعِلُوا خَلْفَ ظَهْرِي عِنْدَ كَتِفِي، ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: قُلْ لِأَصْحَابِهِ: إِنِّي سَائِلٌ هَذَا الرَّجُلَ عَنِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، فَإِنْ كَذَبَ فَكَذِّبُوهُ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: وَاللَّهِ لَوْلاَ الحَيَاءُ يَوْمَئِذٍ، مِنْ أَنْ يَأْثُرَ أَصْحَابِي عَنِّي الكَذِبَ، لَكَذَبْتُهُ حِينَ سَأَلَنِي عَنْهُ، وَلَكِنِّي اسْتَحْيَيْتُ أَنْ يَأْثُرُوا الكَذِبَ عَنِّي، فَصَدَقْتُهُ، ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: قُلْ لَهُ كَيْفَ نَسَبُ هَذَا الرَّجُلِ فِيكُمْ؟ قُلْتُ: هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ، قَالَ: فَهَلْ قَالَ هَذَا القَوْلَ أَحَدٌ مِنْكُمْ قَبْلَهُ؟ قُلْتُ: لاَ، فَقَالَ: كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ عَلَى الكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ قُلْتُ: لاَ، قَالَ: فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ؟ قُلْتُ: لاَ، قَالَ: فَأَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟ قُلْتُ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ، قَالَ: فَيَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ؟ قُلْتُ: بَلْ يَزِيدُونَ، قَالَ: فَهَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ؟ قُلْتُ: لاَ، قَالَ: فَهَلْ يَغْدِرُ؟ قُلْتُ: لاَ، وَنَحْنُ الآنَ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ، نَحْنُ نَخَافُ أَنْ يَغْدِرَ، - قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: وَلَمْ يُمْكِنِّي كَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا أَنْتَقِصُهُ بِهِ، لاَ أَخَافُ أَنْ تُؤْثَرَ عَنِّي غَيْرُهَا -، قَالَ: فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ أَوْ قَاتَلَكُمْ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَيْفَ كَانَتْ حَرْبُهُ وَحَرْبُكُمْ؟ قُلْتُ: كَانَتْ دُوَلًا وَسِجَالًا، يُدَالُ عَلَيْنَا المَرَّةَ، وَنُدَالُ عَلَيْهِ الأُخْرَى، قَالَ: فَمَاذَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ؟ قَالَ: يَأْمُرُنَا أَنْ نَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ لاَ نُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَيَنْهَانَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا، وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلاَةِ، وَالصَّدَقَةِ، وَالعَفَافِ، وَالوَفَاءِ بِالعَهْدِ، وَأَدَاءِ الأَمَانَةِ، فَقَالَ لِتَرْجُمَانِهِ حِينَ قُلْتُ ذَلِكَ لَهُ: قُلْ لَهُ: إِنِّي سَأَلْتُكَ عَنْ نَسَبِهِ فِيكُمْ، فَزَعَمْتَ أَنَّهُ ذُو نَسَبٍ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ قَالَ أَحَدٌ مِنْكُمْ هَذَا القَوْلَ قَبْلَهُ، فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ، فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ أَحَدٌ مِنْكُمْ قَالَ هَذَا القَوْلَ قَبْلَهُ، قُلْتُ رَجُلٌ يَأْتَمُّ بِقَوْلٍ قَدْ قِيلَ قَبْلَهُ، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ، فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ الكَذِبَ عَلَى النَّاسِ وَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ، فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ، فَقُلْتُ لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ، قُلْتُ يَطْلُبُ مُلْكَ آبَائِهِ، وَسَأَلْتُكَ: أَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ، فَزَعَمْتَ أَنَّ ضُعَفَاءَهُمُ اتَّبَعُوهُ، وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ، فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ، وَكَذَلِكَ الإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ، فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ، فَكَذَلِكَ الإِيمَانُ حِينَ تَخْلِطُ بَشَاشَتُهُ القُلُوبَ، لاَ يَسْخَطُهُ أَحَدٌ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ، فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لاَ يَغْدِرُونَ، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ وَقَاتَلَكُمْ، فَزَعَمْتَ أَنْ قَدْ فَعَلَ، وَأَنَّ حَرْبَكُمْ وَحَرْبَهُ تَكُونُ دُوَلًا، وَيُدَالُ عَلَيْكُمُ المَرَّةَ وَتُدَالُونَ عَلَيْهِ الأُخْرَى، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى وَتَكُونُ لَهَا العَاقِبَةُ، وَسَأَلْتُكَ: بِمَاذَا يَأْمُرُكُمْ، فَزَعَمْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ وَلاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَيَنْهَاكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُكُمْ، وَيَأْمُرُكُمْ بِالصَّلاَةِ، وَالصَّدَقَةِ، وَالعَفَافِ، وَالوَفَاءِ بِالعَهْدِ، وَأَدَاءِ الأَمَانَةِ، قَالَ: وَهَذِهِ صِفَةُ النَّبِيِّ، قَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ، وَلَكِنْ لَمْ أَظُنَّ أَنَّهُ مِنْكُمْ، وَإِنْ يَكُ مَا قُلْتَ حَقًّا، فَيُوشِكُ أَنْ يَمْلِكَ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ وَلَوْ أَرْجُو أَنْ أَخْلُصَ إِلَيْهِ، لَتَجَشَّمْتُ لُقِيَّهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ قَدَمَيْهِ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُرِئَ، فَإِذَا فِيهِ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ، سَلاَمٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الهُدَى، أَمَّا بَعْدُ: فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الإِسْلاَمِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ، فَعَلَيْكَ إِثْمُ الأَرِيسِيِّينَ وَ: {يَا أَهْلَ الكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ، أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا، وَلاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ، فَإِنْ تَوَلَّوْا، فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ} [آل عمران: 64] ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَلَمَّا أَنْ قَضَى مَقَالَتَهُ، عَلَتْ أَصْوَاتُ الَّذِينَ حَوْلَهُ مِنْ عُظَمَاءِ الرُّومِ، وَكَثُرَ لَغَطُهُمْ، فَلاَ أَدْرِي مَاذَا قَالُوا، وَأُمِرَ بِنَا، فَأُخْرِجْنَا، فَلَمَّا أَنْ خَرَجْتُ مَعَ أَصْحَابِي، وَخَلَوْتُ بِهِمْ قُلْتُ لَهُمْ: لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ، هَذَا مَلِكُ بَنِي الأَصْفَرِ يَخَافُهُ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: وَاللَّهِ مَا زِلْتُ ذَلِيلًا مُسْتَيْقِنًا بِأَنَّ أَمْرَهُ سَيَظْهَرُ، حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ قَلْبِي الإِسْلاَمَ وَأَنَا كَارِهٌ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

 اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ کسی بندے کے لیے یہ لائق نہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ اسے ( کتاب و حکمت ) عطا فرمائے تو ( وہ بجائے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لوگوں سے اپنی عبادت کے لیے کہے ) آخر آیت تک ۔

2941.

حضرت ابن عباس  ؓ ہی سےروایت ہے، انھوں نے فرمایا: مجھے ابو سفیان نے خبر دی کہ وہ قریش کے کچھ آدمیوں کے ہمراہ شام میں تھے جو تجارت کی غرض سےیہاں آئے تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ اور کفار قریش کے درمیان صلح ہو چکی تھی۔ ابو سفیان نے کہا کہ قیصر کے قاصد نے ہمیں شام کے کسی علاقے میں تلاش کر لیا اور وہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو اپنے ساتھ لے کر چلا حتی کہ ہم بیت المقدس پہنچے تو ہمیں قیصر روم کے دربار میں پہنچا دیا گیا وہ اپنے شاہی دربار میں سر پر (بادشاہت کا)تاج سجائے بیٹھا ہوا تھا اورروم کے امراء و وزراء اس کے اردگرد جمع تھے۔ اس نے اپنے ترجمان سے کہا: ان لوگوں سے دریافت کرو کہ وہ آدمی جو خود کو نبی کہتا ہے نسب کے اعتبار سے تم میں سے کون اس کے زیادہ قریب ہے؟ ابوسفیان نے کہا: نسب کے اعتبار سے میں اس کے زیادہ قریب ہوں۔ شاہ روم نے پوچھا کہ تمھاری اور اس کی کیا رشتہ داری ہے؟ میں نے کہا کہ وہ میرا چچا زاد بھائی ہے اور واقعی ان دنوں اس قافلے میں میرے علاوہ کوئی شخص بھی بنو عبدمناف میں سے نہیں تھا۔ اس (وضاحت)کے بعد قیصر نے کہا: اس کو میرے قریب بٹھاؤ۔ میرے ساتھیوں کو اس کے حکم کے مطابق میرے پیچھے قریب ہی کھڑا کر دیا گیا۔ اس کے بعد اس نے ترجمان سے کہا: اس کے ساتھیوں کو بتلا دو کہ میں اس سے اس شخص کے متعلق کچھ معلومات حاصل کروں گا۔ جو نبوت کا دعویدار ہے، اگر یہ شخص، اس کے متعلق کوئی جھوٹی بات کہے تو اس کی تکذیب کردینا۔ ابو سفیان نے کہا: اللہ کی قسم! اگر مجھے اس دن اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ مبادا میرے ساتھی میری تکذیب کردیں تو اس کے سوالوں کے جوابات میں ضرورجھوٹ کی ملاوٹ کردیتا جو اس نے آپ کے متعلق مجھ سے کیے تھے لیکن مجھے تو اس بات کا کھٹکا لگا رہا کہیں میرے ساتھی میری تکذیب نہ کردیں، اس لیے میں نے سچائی سے کام لیا۔ اس کے بعد اس نے ترجمان سے کہا: اس سے پوچھو کہ اس شخص کا تمھارے اندر نسب کیسا ہے؟ میں نے کہا: وہ ہم میں اعلیٰ نسب کا حامل ہے۔ پھر اس نے کہا: اس سے پہلے تم میں سے کسی نے ایسا دعویٰ کیا تھا؟ میں نے کہا: نہیں پھر اس نے پوچھا : کیا تم لوگوں نے اس دعوت نبوت سے پہلے اس پر کوئی جھوٹ کا الزام لگایا تھا؟ میں نے کہا: نہیں اس نے پوچھا: کیا اس کے آباؤاجداد میں سے کوئی بادشاہ ہوا ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ اس نے پوچھا: کیا بڑے بڑے لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں یا کمزور لوگ اس کے پیچھے لگے ہیں؟ میں نے کہا: بلکہ کمزور لوگ ہی اس کی پیروی کرتے ہیں۔ اس نے پوچھا: کیا وہ (اس کے پیروکار دن بہ دن)بڑھ رہے ہیں یا وہ تعداد میں کم ہو رہے ہیں؟ میں نے کہا: نہیں، بلکہ تعداد میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ اس نے پوچھا: کیا اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی اس کے دین سے ناراض ہو کر مرتد بھی ہواہے؟ میں نے کہا: ایسا نہیں ہے۔ پھر اس نے پوچھا: کیا وہ بد عہدی کرتا ہے؟ میں نے کہا: نہیں، لیکن آج کل ہمارا اس سے ایک معاہدہ ہوا ہے اور ہمیں اس کی طرف سےمعاہدے کی خلاف ورزی کا اندیشہ ہے۔ ابوسفیان کہتے ہیں کہ مجھے اس فقرے کے سوا اور کوئی بات داخل کرنے کا موقع نہ مل سکا جس سے آپ کی توہین نکلتی ہو اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے جھٹلانے کا بھی اندیشہ نہ ہو۔ پھر اس نے کہا: کیا تم نے اس سے یا اس نے تم سے کبھی کوئی جنگ کی ہے؟ میں کہا: جی ہاں !اس نے کہا: تو پھر وہ جنگ کیسی رہی؟ میں نے کہا: لڑائی میں کبھی ایک گروہ کی فتح نہیں ہوئی بلکہ کبھی وہ ہمیں مغلوب کر لیتے ہیں اور کبھی ہم ان پر غلبہ پا لیتے ہیں۔ اس نے پوچھا: وہ تمھیں کن باتوں کا حکم دیتے ہیں؟ اس(ابو سفیان) نےکہا: وہ ہمیں اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ ہم صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ وہ ہمیں ان بتوں کی عبادت سے بھی منع کرتے ہیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے چلے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ نماز، صدقہ و خیرات، پاک بازی، وفائے عہد اور ادائے امانت کا بھی کہتے ہیں۔ جب میں اسے یہ تمام باتیں بتا چکا تو اس نے اپنے ترجمان سے کہا: ان سے کہو کہ میں نے تم سے ان کے نسب کے متعلق دریافت کیا تو تم نے بتایا کہ وہ تمھارے ہاں صاحب نسب اور انتہائی شریف سمجھے جاتے ہیں اور انبیائے کرام بھی اسی طرح اپنی قوم میں اعلیٰ نسب کے حامل ہوتے ہیں۔ پھر میں نے دریافت کیا کہ آیا یہ بات اس سے پہلے بھی تم میں سے کسی نے کہی تھی؟ تم نے بتلایا کہ نہیں !میں کہتا ہوں کہ اگر یہ بات اس سے پہلے کسی اور نے کہی ہوتی تو میں کہتا کہ یہ شخص ایک بات کی نقالی کر رہا ہے جو اس سے پہلے کہی جا چکی ہے۔ میں نےتم سے پوچھا کہ نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے تم نے کبھی اسے جھوٹ بولتے دیکھاہےتو تم نےکہا: نہیں۔ اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص لوگوں پر جھوٹ باندھنے سے تو پرہیز کرے اور اللہ پردیدہ دلیری سے جھوٹ بولے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے بزرگوں میں سے کوئی بادشاہ گزرا ہے تو تم نے بتایا کہ نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر اس کے بزرگوں میں سے کوئی بادشاہ گزراہوتا تو میں کہتا کہ یہ شخص (اس دعوائے نبوت کی آڑ میں) اپنے باپ داداکی بادشاہت کا طالب ہے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ بڑے بڑے سردار اس کی پیروی کر رہے ہیں یا کمزور لوگ ؟ تم نے کہا کہ کمزور لوگ ہی اس کی پیروی کررہے ہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس قسم کے ناتواں لوگ ہی پیغمبروں کے پیروکارہوتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ وہ بڑھ رہے رہیں یا کم ہورہےہیں ؟ تم نے بتلایا کہ ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ درحقیقت ایمان کا یہی حال ہوتا ہے تا آنکہ وہ پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے۔ پھر میں نے پوچھا کہ اس دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص دین سے بے زار ہو کر مرتد بھی ہوا ہے؟ تو تم نے بتایا کہ نہیں۔ واقعی ایمان کا یہ حال ہوتا ہے کہ اس کی چاشنی جب دل میں سے جاتی ہے تو پھر نکلتی نہیں۔ پھر میں نے تم سے دریافت کیا کہ وہ عہد شکنی بھی کرتا ہے تو تم نے آگا کیا کہ نہیں۔ یقیناًرسول اللہ ﷺ ایسے ہی ہوتے ہیں کہ وہ عہد شکنی نہیں کرتے میں نے تم سے پوچھا: کیاتم نے اس سے جنگ کی ہے، انھوں نے تم سے جنگ کی ہے، تم نے کہا: ہاں، ایسا ہوا ہے، البتہ وہ جنگ ڈول کی طرح رہی، کبھی وہ تم پر غالب اور کبھی تم ان پر غالب رہے۔ رسولوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ ان کا امتحان لیا جاتا ہے لیکن اچھا انجام ان کے حق ہی میں ہوتاہے۔ میں نے تم سے یہ بھی پوچھا کہ وہ تمھیں کن باتوں کا حکم دیتے ہیں، توتم نے بتایا کہ وہ اللہ کی عبادت کرنے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانے کا حکم دیتا ہے اور تمھیں ان کی عبادت کرنے سے منع کرتا ہے جن کی تمھارے آباء و اجداد عبادت کرتے چلے آئے ہیں اور اس کے علاوہ وہ تمھیں نماز، سچائی، پرہیز گاری وہ پاکدامنی، ایفائے عہد اور ادائے امانت کا حکم دیتا ہے۔ واقعی نبی ﷺ کی یہی صفات ہوتی ہیں۔ میں جانتا تھا کہ یہ نبی آنے والا ہے لیکن میرا یہ خیال نہ تھا کہ وہ تم میں سے ہو گا۔ جو کچھ تم نے بتایا ہے اگر وہ صحیح ہے تو یہ شخص بہت جلد اس جگہ کا مالک ہو جائے گا جہاں میرے یہ دونوں قدم ہیں۔ اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں اس کے پاس پہنچ سکوں گا تو اس سے ملاقات کی ضرور زحمت اٹھاتا۔ اگر میں اس کے پاس ہوتا تو ضرور اس کے پاؤں دھوتا۔ ابو سفیان نےکہا: پھر اس نے رسول اللہ ﷺ کا خط منگوایا اور وہ اس کے سامنے پڑھا گیا، اس میں یہ لکھا تھا۔ شروع اللہ کے نام سے جو بہت مہربان، انتہائی رحم کرنے والا ہے۔ اللہ کے بندے اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ہرقل عظیم روم کے نام، اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اس کے بعد میں تمھیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ مسلمان ہو جاؤ تو سلامتی میں رہو گے اور اللہ تعالیٰ تمھیں دوہرا اجر دے گا۔ اور اگر تم نے روگردانی کی تو تیری رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہو گا۔ ’’اے اہل کتاب!ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور ہم میں سے کوئی بھی اللہ کے سوا کسی کو رب نہ بنائے۔ پھر اگر یہ لوگ اعراض کریں تو (صاف)کہہ دو گواہ رہو کہ بے شک ہم فرمانبردار ہیں۔‘‘ ابو سفیان نے کہا: جب اس نے اپنی بات پوری کر لی تو اس کے آس پاس رومی سرداروں کی آوازیں بلند ہونے لگیں اور وہاں بہت غل غپاڑہ ہوا۔ میں نہیں جانتا کہ انھوں نے کیا کہا، البتہ ہمارےمتعلق حکم دیا گیا تو ہمیں وہاں سے باہر نکال دیا گیا۔ اب اپنے ساتھیوں سمیت باہر نکلا اور ان کے ساتھ گوشہ تنہائی میسر آیا تو میں نے کہا: ابوکبشہ کے بیٹے کا معاملہ بڑا زور پکڑ گیا ہے۔ اس سے تو رومیوں کا یہ بادشاہ بھی ڈرتا ہے۔ اللہ کی قسم!اس کے بعد میں ذلت محسوس کرتا رہا اور مجھے برابر یقین رہا کہ وہ غالب آکر رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام جاگزیں کر دیا جبکہ میں اسے ناپسند کرتا تھا۔