تشریح:
1۔ ان احادیث میں دجال کے متعلق تین مختلف واقعات بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری ؒ اس سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بچہ اگر اقرارکر لے تو اس کا اسلام قبول ہو گا ۔کیونکہ ابن صیاد قریب البلوغ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:ــ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘ آپ نے اس انداز سے اس پر اسلام پیش کیا کہ اگر وہ مان لیتا تو اس کا اسلام صحیح تھا۔ اگر بچے کا اسلام قبول نہ ہوتا تو آپ اس پر اسلام پیش نہ کرتے ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے بطور امتحان اس سے چند سوال کیے تاکہ صحابہ کرام ؓ پر اس کا باطل ہونا واضح ہوجائے چنانچہ اس نے خود اقرار کیا کہ اس کے پاس سچا اور جھوٹا دونوں آتے ہیں۔ اگر وہ حق ہوتا تو اس کے پاس صرف سچا فرشتہ ہی آتا۔ 2۔رسول اللہ ﷺ نے اپنے دل میں ﴿يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ﴾ کا تصور فرمایا ابن صیاد نے دخان کی بجائے صرف "دخ" بتایا جیسا کہ شیاطین کی عادت ہوتی ہے سنی ہوئی ایک آدھ بات لے اڑتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر اسے جھوٹا نہیں کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو وہ چڑ جائے اور ہمارا مقصد پورا نہ ہو سکے۔ اس لیے آپ نے ایسا جامع جواب دیا کہ ابن صیاد چڑا بھی نہیں اور اس کی رسالت کا پول بھی کھل گیا۔