تشریح:
1۔حمی اس چراگاہ کو کہا جاتا ہے جسے حاکم صدقے کے جانوروں کے لیے مختص کردے،ایسی چراگاہ میں غریبوں کے جانوروں کا پہلے حق ہے کیونکہ اگر ان کے جانور بھوکے مر گئے تو بیت المال سے انھیں نقد وظیفہ دینا پڑے گا، اس کے برعکس اگر مال داروں کے جانور ہلاک ہو گئے تو وہ اپنے باغات اور زراعت کی طرف رجوع کرلیں گے۔ اور بیت المال سے نقد وظیفے کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی گاؤں کی شاملات جہاں لوگ مویشی وغیرہ چراتے ہیں وہ گاؤں والوں کا حق ہے حاکم وقت انھیں فروخت نہیں کر سکتا ۔ 2۔امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان حضرت عمر ؓ کے ارشاد سے ثابت کیا۔ ’’وہ زمین انھی کی تھی زمانہ جاہلیت میں انھوں نے اس کے لیے لڑائیاں لڑیں اور اسلام لانے کے بعد انھی کی ملکیت میں رہی۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ کافر کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد اسلام لانے کے بعد اسی کی رہتی ہے اگرچہ وہ دارالحرب ہی میں رہے جبکہ کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ صرف منقولہ جائیداد کے حق دار ہیں لیکن غیر منقولہ جائیداد حکومت کی ملکیت ہوگی مذکورہ حدیث کی بنا پر یہ موقف محل نظر ہے۔ واللہ أعلم۔