تشریح:
1۔ اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ حیض اور استحاضے کے احکام میں فرق ہے۔ استحاضہ ایک عذر ہے اور مستحاضہ کا حکم معذور جیسا ہے۔ عورت نماز بھی پڑھے گی، روزے بھی رکھے گی۔ واضح رہے کہ حدیث کی رُو سے اس کی تین وجہیں ہیں: ©۔ یہ خون بیماری یا رگ پھٹنے سے آتا ہے۔ جب رگوں میں خون حد سے زیادہ بھر جاتا ہے تو وہ پھٹ جاتی ہیں اور ان سے خون بہنے لگتا ہے، یعنی انقطاع رگ۔ ©۔ الحاق مرض۔ ©۔ رکضہ شیطان۔ (مسند احمد:464/6) ©۔ رکضہ شیطان کا مطلب بعض علماء کے نزدیک یہ ہے کہ شیطان کو موقع ملتاہے کہ وہ عورت کو اس کے ذریعے سے التباس میں مبتلا کردے تاکہ وہ ایک دینی معاملے میں توہمات کا شکار ہوجائے کہ وہ ایسے حالات میں خود کو نماز کے قابل سمجھے یا نماز کے قابل خیال نہ کرے۔لیکن یہ تاویل ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ اسے ظاہر معنی ہی پر محمول کیا جائے، یعنی شیطان کے کچوکا مارنے سے بھی بعض دفعہ استحاضے کا خون جاری ہو جاتاہے۔ 2۔ اس روایت میں ہے کہ خون دھوڈالو اور نمازپڑھو۔ یہاں غسل کرنے کی صراحت نہیں، جبکہ ایک دوسری روایت (325) میں غسل کرنے کی ہدایت ہے، لیکن وہاں خون دھونے کی وضاحت نہیں۔ راوی نے دونوں جگہ سے اختصار سے کام لیا ہے، کیونکہ خون دھونا اور غسل کرنا دونوں ہی ضروری ہیں۔ ایک تیسری چیز کی بھی ضرورت ہے کہ اس قسم کی عورت ہرنماز کے لیے وضو بھی کرے، جیساکہ صحیح بخاری کی حدیث (228) میں موجود ہے۔ اس لفظ کا تقاضا ہے کہ مستقل عذروالے مرد یا عورت کو ہرنمازکے لیے تازوہ وضو کرناہوگا اور اس نماز سے متعلقہ سنن ونوافل بھی اس وضو سے پڑھے جاسکتے ہیں، نماز ادا کرنے کے بعد وضو خود بخود ختم ہوجائےگا جبکہ کچھ حضرات کا موقف یہ ہے کہ ہر وقت نماز کے لیے نیاوضو کرنا ہوگا۔ اور اس وقت میں جس قدر چاہے نوافل وفرائض پڑھ لے، خواہ وہ اس نماز سے غیر متعلق ہی کیوں نہ ہوں، نیز اس دوران میں فوت شدہ نمازیں بھی ادا کی جاسکتی ہیں۔ 3۔ حیض کے اقبال وادبار (شروع ہونے اور بند ہونے) کی پہچان پر استحاضے کی شناخت کا دارو مدار ہے۔ اس لحاظ سے حیض کے اقبال وادبار کی شناخت حسب ذیل طریقوں سے ہوسکتی ہے: ©۔ عادت:۔ عورتوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ایام حیض کب شروع ہوتے ہیں اور وہ کب انتہا کو پہنچتے ہیں۔ اس طرح کی عورت کو مُعتَادَہ کہا جاتاہے۔ ایام حیض کے علاوہ دوسرے دن استحاضے کے شمار ہوں گے۔ ©۔ تمیز: اگرعادت پختہ نہ ہوتو ایام حیض کی پہچان تمیز سے ہوسکتی ہے اور اس کی بنیاد تین چیزیں ہیں:1۔ خون سیاہی مائل ہو۔ 2۔ گاڑھا ہو۔ 3۔ اس کی ہوا گندی ہو۔ 3۔ اس قسم کی عورت کومتمیزہ کہاجاتا ہے۔ ©۔ تحریری: اگرایام حیض یاد نہیں یا تمیز بھی نہیں ہوسکتی تو ایسی عورت کوتَحَری (سوچ بچار) کرنی چاہیے۔ اگر کسی ایک جانب غالب گمان ہوجائے تو اس کے مطابق عمل کرے۔ ایسی عورت کو مُتَحَرِبَّہ کہتے ہیں۔اگرتحری سے بھی کچھ فائدہ نہ ہو تو ایسی عورت متحیرہ ضالہ مضلہ ہے۔ ایسے عورت کو چاہیے کہ وہ اپنی عمر اور جسمانی صحت کے لحاظ سے ملتی جلتی عورتوں کی عادت کے مطابق عمل کرے۔ عام عورتیں چھ یا سات دن تک حیض میں مبتلارہتی ہیں۔ اس کے بعد غسل کرکے نماز شروع کردیتی ہیں۔ 4۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ استحاضے کے متعلق شیخ محمد بن صالح العثمین ؒ کے نتیجہ فکر کوتحریر کردیاجائے جو انھوں نے ایک کتابچے میں رقم فرمایا ہے۔ استحاضے کی دوصورتیں ہیں۔ ©۔ عورت کو ہمیشہ خون آتارہے اور وہ کسی دن بند نہ ہو، جیساکہ فاطمہ بنت ابی حبيش ؓ نے کہا تھا:اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے استحاضہ آتا ہے کہ میں کبھی پاک نہیں ہوتی ہوں۔ (صحیح البخاري، الحیض، حدیث:306) ©۔ عورت کو بکثرت خون آتا ہو، مہینے میں ایک یا دو دن کے لیے منقطع ہو، جیسا کہ حمنہ بنت جحش ؓ نے کہا تھا:اے اللہ کے رسول ﷺ ! مجھے بکثرت بڑی شدت سے استحاضہ آتا ہے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث:287) مستحاضہ کی تین حالتیں ممکن ہیں: ©۔ اسے اپنے ایام حیض معلوم ہوں۔ اس صورت میں جتنے ایام حیض کے لیے مخصوص ہوں گے، ان پر احکام حیض اوربقیہ دنوں پر استحاضہ کے احکام جاری ہوں گے۔ حدیث میں ہے کہ فاطمہ بنت ابی حبيش ﷺ نے کہا:اےاللہ کے رسول ﷺ ! مجھے ہمیشہ ایسا استحاضہ آتا ہے کہ کبھی پاکیزگی حاصل نہیں ہوتی، کیا میں نماز چھوڑدوں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔ یہ خون ایک رگ سے آتا ہے، اپنے ایام حیض کی مقدار نماز ترک کردے، پھر غسل کرکے نماز پڑھ ۔‘‘ (صحیح البخاري، الحیض، حدیث:306) اسی طرح آپ نے ام حبیبہ بنت جحش ؓ سے فرمایا تھا کہ جتنے دن تجھے حیض روکے رکھے،اتنے دن نماز ترک کردے پھرغسل کراور نمازپڑھ ۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث:279) اس بنا پر مستحاضہ کو چاہیے کہ وہ اپنے مقرر ایام حیض میں نماز ترک کردے اوربقیہ ایام میں غسل کرکے نماز شروع کردے۔ اگربقیہ دنوں میں خون جاری رہتا ہے تو اس کی پروانہ کرے۔ ©۔ اسے ایام حیض معلوم نہیں۔ جب سے حیض آنا شرو ع ہوا خون جاری رہا، کبھی بند نہیں ہوا۔ تو ایسی عورت کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ خون حیض کی تمیزکرے، جس کی تین صورتیں ہیں:1۔ خون سیاہی مائل ہو۔ 2۔ گاڑھا ہو۔ 3۔ اس کی گندی ہوا ہو۔ مثال کے طورپر ایک عورت کو جب حیض شروع ہوا تو اس نے ابتدائی دس دن اس کی رنگت سیاہ دیکھی یا وہ گاڑھا تھا یا اس کی ہوا گندی تھی تو ابتدائی دس دن حیض کے شمار کرکے، بقیہ ایام استحاضہ میں، غسل کرکے نماز پڑھے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش ؓ سے فرمایا کہ حیض کا خون سیاہ رنگ کا ہوتاہے۔ سیاہ خون آنے تک نماز نہ پڑھو، پھر وضو کرکے نماز شروع کردو، کیونکہ اس کے بعد آنے والا خون استحاضے کا ہے۔ (سنن اأبي داود، الطھارة، حدیث:286) ©۔ اس کے دن بھی مقرر نہ ہوں اور نہ وہ تمیز ہی کرسکتی ہو، مثلاً: جب اسے حیض آنا شروع ہواتو وہ ایک ہی صفت پررہا یا کبھی سیاہ پھر سرخ پھر سیاہ آتارہا، جس سے حیض کی پہچان نہ ہوسکی تو وہ اپنی عمر اور جسمانی صحت کے لحاظ سے ملتی جلتی عام عورتوں کی عادت کے مطابق عمل کرے، یعنی وہ ہر مہینے چھ یا سات دن حیض کے شمار کرکے بقیہ ایام میں استحاضہ کے مطابق عمل کرے، جیسا کہ حضرت حمنہ بنت حجش ؓ نے کہا تھا:اے اللہ کے رسول ﷺ ! مجھے بکثرت شدت سے خون آتا ہے، کیا میں نماز، روزہ ترک کردوں؟آپ نے فرمایا:’’تم روئی استعمال کرو، اس سے خون رک جائے گا۔‘‘عرض کیا: خون اس سے بھی زیادہ ہے، یعنی روئی وغیرہ کے استعمال سے بند نہیں ہوتا۔آپ نے فرمایا:’’یہ رکضہ شیطان ہے۔ تو اللہ کے علم کے مطابق چھ یا سات دن تک نماز ترک کردے، پھر غسل کرکے تیئیس یا چوبیس دن نماز پڑھ اور روزہ رکھ۔‘‘ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 287) واضح رہے کہ چھ یا سات دن اکثرعورتوں کی عادت کے مطابق ہیں۔ وہ دیکھے کہ میری عمر اور جسمانی صحت کس سے ملتی ہے، اس کی عادت کے مطابق عمل کرے۔ بعض دفعہ کسی ہنگامی حالت (رحم کے اپریشن وغیرہ) کے پیش نظر خون جاری ہوجاتا ہے۔ اس کی دوصورتیں ہیں: ©۔ آپریشن کے وقت رحم کو نکال دیاجائے یااسے مسدود کردیاجائے۔ ایسے حالات میں یقینی طورپر حیض جاری نہیں ہوسکے گا۔ ایسی صورت حال کے پیش نظر جاری شدہ خون کا حکم اس زرد رنگ کے پانی یا رطوبت جیسا ہوگا جوحیض سے فراغت کے بعد فرج سے برآمد ہوتا ہے۔ایسی عورت نماز روزے کی پابندی کرے گی اور اس سے جماع کی بھی کوئی ممانعت نہیں۔ اسے چاہیے کہ نماز کے وقت خون دھوکر شرمگاہ پر پٹی باندھ لے تاکہ مزید خون نکلنا بند ہوجائے۔ پھر اگر فرض نماز پڑھنی ہے تو دخول وقت کے بعد اور اگر نوافل وغیرہ ادا کرنے ہیں تو ان کی ادائیگی سے پہلے وضو کرلیا جائے۔ ©۔ اپریشن کےبعد اگرحیض کا امکان باقی رہے تو اس صورت میں جاری شدہ خون حیض نہیں ہوگا بلکہ اس کے متعلق استحاضہ کے احکام جاری ہوں گے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ بنت ابی حبيش کو فرمایا تھا کہ یہ رگ کا خون ہے، ہاں جب تجھے حیض آئے تو نماز چھوڑدینا۔ اس فرمان نبوی ﷺ سے رہنمائی ملتی ہے کہ جس عورت کو حیض آسکتاہے اور اس کے آنے جانے کا بھی پتہ ہو توحیض کےعلاوہ دوسرا خون استحاضے کا شمارہوگا اور جس کے حیض کا امکان ہی نہیں۔ جیسا کہ پہلی صورت میں ہے، اس کا خون زرد رنگ کے پانی یا رطوبت کا حکم رکھتا ہے۔ 5۔ مستحاضہ پاک عورت کے حکم میں ہے۔ صرف تین احکام اس کے ساتھ خاص ہیں: ©۔ مستحاضہ کو ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا ہوگا، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش ؓ کو حکم دیا تھا کہ ہر ہو نماز کے لیے تازہ وضو کرے۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:228) اس کا مطلب یہ ہےکہ بروقت ادا کی جانے والی نماز کے لیے دخول وقت کے بعد وضو کیا جائے۔ اور جن نوافل کا وقت مقرر نہیں ہے، انھیں ادا کرنے سے پہلے وضو کرنا ہوگا۔ ©۔ جب وضو کرنے کا ارادہ ہوتو پہلے خون کے نشانات کو دھویا جائے، پھر شرمگاہ پرروئی رکھ کر اس پر پٹی باندھ لی جائے تاکہ مزید خون بہنا بند ہوجائے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حمنہ ؓ کو فرمایا تھا کہ شرمگاہ پر روئی رکھ لو۔ عرض کیا: اس سے خون بند نہیں ہوگا۔ فرمایا:’’کپڑا رکھ لو۔‘‘ عرض کیا:ایسا کرنے سے بھی خون جاری رہتا ہے۔فرمایا:"لنگوٹ باندھ لو۔‘‘ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث:287) اگر اس کے بعد خون نہ رکے تو کوئی حرج نہیں۔ ©۔ مستحاضہ سے جماع کے متعلق علماء کا اختلاف ہے۔ راجح بات یہی ہے کہ جماع کیاجاسکتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں کم وبیش دس عورتیں ایسی تھیں جنھیں استحاضے کا عارضہ لاحق تھا، لیکن اللہ یا اس کے رسول ﷺ نے ان سے جماع کے متعلق کوئی امتناعی حکم جاری نہیں فرمایا، بلکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جب عورتوں کو حیض آئے تو ان سے الگ رہو۔ اس کا بھی تقاضا ہے کہ حائضہ کے علاوہ دوسری عورتوں سے جماع کی پابندی نہیں۔پھر جب نماز پڑھ سکتی ہےتو جماع بھی کیا جاسکتا ہے۔ حائضہ سے جماع پر اسے قیاس کرنا صحیح نہیں، کیونکہ ان دونوں کے احکام الگ الگ ہیں، اس لیے یہ قیاس، قیاس مع الفارق ہوگا، نیز اس کے جواز کے متعلق حدیث میں وضاحت بھی موجود ہے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث:309۔ 310)