تشریح:
1۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمر ؓکے دورحکومت میں لشکر اسلام ایران کی طرف چلا۔ جب قادسیہ پہنچاتو شاہ ایران یزدگرد نے ایک زبردست فوج مسلمانوں کے مقابلے کے لیے روانہ کی جس سے مسلمانوں کو کافی نقصان پہنچا۔ طلیحہ اسدی، عمرو بن معد یکرب اور ضرار بن خطاب جیسے اسلامی بہادر اس جنگ میں شہید ہوگئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک تیز آندھی بھیجی جس نے کافروں کے خیمے اکھاڑدیے۔ ادھر سے مسلمانوں نے حملہ کردیا۔ وہ بھاگے اور اس بھگدڑ میں ان کا نامی گرامی پہلوان رستم ثانی ماراگیا۔ مجاہدین ان کاتعاقب کرتے ہوئے مدائن پہنچے۔ وہاں کارئیس ہرمزان قلعہ بند ہوگیا۔ آخر اس نے امان طلب کی اور خوشی سے مسلمان ہوگیا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ جو اسلامی فوج کے سربراہ تھے انھوں نے ہرمزان کو حضرت عمر ؓ کے پاس بھیج دیا۔ حضرت عمر ؓ نے اس کی عزت افزائی کی۔ اسے صاحب فراست اور عقلمند پایا تو اسے اپنا مشیر خاص بنالیا، چنانچہ ہرمزان نےکسریٰ کے متعلق صحیح مشورہ دیا جس کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہے۔ (عمدة القاري:508/10) 2۔حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب دشمن کی فوج کو دیکھا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ لوہے کی زنجیر میں بندھے ہوئے ہیں تاکہ بھاگ نہ سکیں تو انھوں نے ان پر جلدی حملہ کرنا چاہا تاکہ انھیں تیاری کا موقع نہ مل سکے۔ حضرت نعمان ؓ نے فرمایا:واقعی آپ بہت خوبیوں کے مالک ہیں لیکن میں توجلد بازی سے کام نہیں لوں گا بلکہ رسول اللہ ﷺ کی سیرت کی اتباع کروں گا اور ہواؤں کے چلنے پر زوال آفتاب کا انتظار کروں گا تاکہ اس اتباع کے سبب ہمیں کامیابی نصیب ہو۔ 3۔ اس حدیث میں جزیے کا ذکر ہے اور اس طرح حضرت نعمان بن مقرن ؓ نے دشمن پر حملے میں تاخیر کی حتی کہ نصرت کی ہوائیں چلنے اور زوال آفتاب کا انتظار کیا۔ یہ تاخیر موادعت ہے کیونکہ اس میں صلح کا امکان تھا۔ 4۔ اس حدیث سے باہمی مشاورت کی اہمیت کا بھی پتہ چلتا ہے، نیز معلوم ہوا کہ مرتبے میں بڑا آدمی اپنے سے کمتر کا مشورہ لے سکتا ہے۔ (عمدة القاري:508/10) 5۔غیر مسلموں پر جزیہ عائد کرنے کی حکمت یہ ہے کہ اس سے انھیں غوروفکر کرنے کا موقع ملے گا اور جزیے کی ذلت انھیں اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرے گی، نیز اہل اسلام کے ساتھ ملنے جلنے سے انھیں اسلام کی خوبیوں کا تجربہ ہوگا۔ (فتح الباري:311/6)