تشریح:
1۔ مطلب یہ ہے کہ جس نے کسی کو پناہ دی تو اس کی امان تمام مسلمانوں کی طرف سے سمجھی جائے گی۔ امان دینے والا بڑا ہو چھوٹا، آزاد ہو یا غلام مرد ہو یا عورت، کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس کی دی ہوئی امان کو ختم کرسکے۔ عورت کی پناہ کا ذکر پہلی حدیث میں آچکاہے۔ غلام کی پناہ کو بھی جمہور علماء نے جائز قراردیا ہے، خواہ وہ لڑائی میں حصہ لے یا نہ لے۔ بچےکے متعلق جمہور کا اجماع ہے کہ اس کی پناہ کا کوئی اعتبار نہیں۔ اسی طرح دیوانے اورکافر کی پناہ بھی ناجائز ہے۔ (فتح الباري:329/6) 2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت علی ؓ کے پاس بھی یہی مروجہ قرآن مجید تھا۔ بعض لوگوں کا یہ موقف غلط ہے کہ حضرت علیؓ یا دوسرے اہل بیت کے پاس کوئی قرآن کامل تھا۔