تشریح:
1۔ اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ (ا)سورج اور اسی طرح دوسرے سیاروں کی گردش محض کشش ثقل کا نتیجہ نہیں بلکہ اجرام فلکی اور ان کے نظام پر اللہ کا حکیم وخیبر کا زبردست کنٹرول ہے کہ ان میں نہ تو تصادم ہوتا ہے اور نہ ان کی مقررہ گردش ہی میں کمی بیشی ہوتی ہے اور یہ سب اجرام حکم الٰہی کے تحت گردش کر رہے ہیں۔ (ب) قیامت سے پہلے ایسا وقت آنے والا ہے جب سورج مغرب سے طلوع ہو گا اور اس کے بعد نظام کائنات بگڑ جائے گا۔ مغربی اقوام آج مرکز ثقل اور گردشی محور کی تلاش میں ہیں۔ ممکن ہے کہ انھیں اس کا کوئی سراغ مل جائے اور وہ اس پر کنٹرول کر کے زمین کی گردش کچھ وقت کے لیے روک دیں اور جب کنٹرول کرنے کے بعد اسے چھوڑیں گے تو زمین آہستہ آہستہ اپنی اصل گردش پر رواں ہوگی۔ ایسے حالات میں ایک دن ایک سال کے برابر ہو سکتا ہے اور ایسا دجال کی آمد کے وقت ہو گا۔ 2۔ آج مغرب زدلوگ سورج کے طلوع وغروب ہونے اور عرش کے نیچے سجدہ کرنے کے بعد دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت مانگنے پر اعتراض کرتے ہیں کہ سورج تو اپنی جگہ پر قائم ہے اور ہمیں جو طلوع و غروب نظر آتا ہے یہ تو محض زمین کی محوری گردش کی وجہ سے ہے؟ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سورج تو اپنی جگہ پر قائم ہے اور ہمیں جو طلوع و غروب نظر آتا ہے یہ تو محض زمین کی محوری گردش کی وجہ سے ہے؟ یہ اعتراض بہت ہی سطحی قسم کا ہے کیونکہ اللہ کا عرش اتنا وسیع ہے کہ ایک سورج کی کیا بات ہے کائنات کی ایک ایک چیز اس کے عرش کے نیچے ہے اور اس کے حضور سجدہ ریز ہے بہر حال ہر مقام پر سورج عرش کے نیچے ہے اور وہ ہر وقت اپنے مالک کے لیے سجدہ کررہا ہے اور اس سے آگے بڑھنے کی اجازت مانگ رہا ہے۔ چونکہ ہر ملک کا مغرب و مشرق مختلف ہے اس لیے طلوع و غروب کے وقت کو خاص کیا۔ واللہ أعلم۔