قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ (بَابُ إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ: آمِينَ وَالمَلاَئِكَةُ فِي السَّمَاءِ، آمِينَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: فَوَافَقَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

3229. حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ المُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ هِلاَلِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ أَحَدَكُمْ فِي صَلاَةٍ مَا دَامَتِ الصَّلاَةُ تَحْبِسُهُ، وَالمَلاَئِكَةُ تَقُولُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ مَا لَمْ يَقُمْ مِنْ صَلاَتِهِ أَوْ يُحْدِثْ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اس طرح دونوں کی زبان سے ایک ساتھ ( با آواز بلند ) آمین نکلتی ہے تو بندے کے گزرے ہوئے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔تشریح:حضرت امام بخاری نے اس حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں جہری نمازوں میں سورۂ فاتحہ کے ختم پر آمین بالجہر یعنی بلند آواز سے آمین بولنے کی فضیلت وارد ہوئی ہے‘امت میں سواد اعظم کا یہی معمول ہے یہاں تک کہ مسالک اربعہ میں سےتینوں مسالک شافعی مالکی حنبلی سب آمین بالجھرکے قائل اور عامل ہیں مگر بہت سے حنفی حضرات نہ صرف اس سنت سے نفرت کرتے ہیں اور اس سنت پر عمل کرنے والوں کو بنگاء حقارت دیکھتے ہیں بلکہ بعض جگہ اپنی مساجدمیں ایسے عاملین بالسنہ کونماز ادا کرنے سے روکتے ہیں جو بہت ہی زیادہ افسوس ناک حرکت ہے بہت سے مصنف مزاج حنفی اکابر علماء نے اس کا سنت ہونا تسلیم کیا ہے اور اس کا عاملین کو ثواب سنت کا حقدار بتایا ہے کاش! جملہ برادران ایسے امور مسنونہ پر جھگڑنا چھوڑ کر اتفاق و اتخاد ملت پیدا کریں اور امت کو انتشار سے نکالیں آمین بالجھر کا مسنون ہونا اور دلائل مخالفین کا جواب پیچھے تفصیل سے لکھا جا چکا ہے یہاں حضرت امام بخاری اس حدیث کو اس لئے لائے کہ فرشتوں کا وجود اور ان کا کلام کرنا ثابت کیا جائے۔

3229.

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جو شخص نمازکی وجہ سے کہیں ٹھہرا رہے تو سارا وقت نماز ہی میں شمار ہوتا ہے اور فرشتے اسکے لیے دعا کرتے ہیں: اے اللہ! اس کی مغفرت فر ما اور اس پر رحم فرما۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے جب تک نماز سے فارغ نہ ہو یا بے وضو نہ ہو۔‘‘