قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ (بَابُ صِفَةِ إِبْلِيسَ وَجُنُودِهِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {يُقْذَفُونَ} [سبأ: 53] يُرْمَوْنَ، {دُحُورًا} [الصافات: 9] مَطْرُودِينَ {وَاصِبٌ} [الصافات: 9] دَائِمٌ " وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مَدْحُورًا مَطْرُودًا يُقَالُ {مَرِيدًا} [النساء: 117] مُتَمَرِّدًا، بَتَّكَهُ قَطَّعَهُ {وَاسْتَفْزِزْ} [الإسراء: 64] اسْتَخِفَّ {بِخَيْلِكَ} [الإسراء: 64] الفُرْسَانُ، وَالرَّجْلُ الرَّجَّالَةُ، وَاحِدُهَا رَاجِلٌ، مِثْلُ صَاحِبٍ وَصَحْبٍ وَتَاجِرٍ وَتَجْرٍ. {لَأَحْتَنِكَنَّ} [الإسراء: 62] لَأَسْتَأْصِلَنَّ [ص:122]. {قَرِينٌ} [الصافات: 51] شَيْطَانٌطان‏.‏

3294. حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الحَمِيدِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ عُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ نِسَاءٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُكَلِّمْنَهُ وَيَسْتَكْثِرْنَهُ، عَالِيَةً أَصْوَاتُهُنَّ، فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ عُمَرُ قُمْنَ يَبْتَدِرْنَ الحِجَابَ، فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ، فَقَالَ عُمَرُ: أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «عَجِبْتُ مِنْ هَؤُلاَءِ اللَّاتِي كُنَّ عِنْدِي، فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَكَ ابْتَدَرْنَ الحِجَابَ» قَالَ عُمَرُ: فَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كُنْتَ أَحَقَّ أَنْ يَهَبْنَ، ثُمَّ قَالَ: أَيْ عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ، أَتَهَبْنَنِي وَلاَ تَهَبْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْنَ: نَعَمْ، أَنْتَ أَفَظُّ وَأَغْلَظُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ قَطُّ سَالِكًا فَجًّا إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور مجاہد نے کہا ( سورۃ والصافات میں ) لفظ یقذفون کا معنی پھینکے جاتے ہیں ( اسی سورۃ میں ) دحورا کے معنی دھتکارے ہوئے کے ہیں ۔ اسی سورۃ میں لفظ واصب کا معنی ہمیشہ کا ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ( سورۃ اعراف میں ) لفظ مدحورا کا معنی دھتکارا ہوا ، مردود ( اور سورۃ نساءمیں ) مریدا کا معنی متمرد و شریر کے ہیں ۔ اسی سورۃ میں فلیبتکن بتک سے نکلا ہے ۔ یعنی چیرا ، کاٹا ۔ ( سورۃ بنی اسرائیل میں ) واستفزز کا معنی ان کو ہلکا کردے ۔ اسی سورۃ میں خیل کا معنی سوار اور رجل یعنی پیادے ۔ یعنی رجالہ اس کا مفرد راجل جیسے صحب کا مفرد صاحب اور تجر کا مفرد تاجر اسی سورۃ میں لفظ لاحتنکن کا معنی جڑ سے اکھاڑدوں گا ۔ سورۃ والصافات میں لفظ قرین کے معنی شیطان کے ہیں ۔ تشریح : یہ باب لاکر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ملاحدہ کا رد کیا جو شیطان کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا نفس ہی شیطان ہے باقی ابلیس کا علےٰحدہ کوئی وجود نہیں ہے۔ قسطلانی نے کہا ابلیس ایک شخص ہے روحانی جو آگ سے پیدا ہوا ہے اور وہ جنوں اور شیطانوں کا باپ ہے۔ جیسے آدم آدمیوں کے باپ تھے۔ بعض نے کہا وہ فرشتوں میں سے تھا۔ خدا کی نافرمانی سے مردود ہوگیا اور جنوں کی فہرست میں داخل کیاگیا۔

3294.

حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی۔ اس وقت آپ کے پاس چند قریشی عورتیں (ازواج مطہرات) آپ کے پاس بیٹھی آپ سے محو گفتگو تھیں اور باآواز بلند آپ سے خرچہ بڑھانے کا مطالبہ کررہی تھیں۔ لیکن جونہی حضرت عمر ؓنے اجازت طلب کی تو وہ اٹھیں اور جلدی سے پس پردہ چلی گئیں۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مسکراتے ہوئے انھیں اجازت دی تو حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے (یہ مسکراہٹ کیسی ہے؟) آپ نے فرمایا: ’’میں ان عورتوں پر تعجب کررہا ہوں جو میرے پاس بیٹھی تھی، جب انھوں نے تمہاری آواز سنی تو جلدی سے حجاب میں چلی گئی ہیں۔‘‘ حضرت عمر ؓنے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ اس امر کے زیادہ حقدار تھے کہ یہ آپ سے ڈریں۔ پھر انہوں نے کہا: اے اپنی جانوں سے دشمنی کرنے والیو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ ﷺ سے نہیں ڈرتیں۔ انھوں نے کہا: واقعہ یہی ہے کیونکہ تم رسول اللہ ﷺ کے برعکس مزاج میں بہت زیادہ سخت ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اس اللہ کی قسم جسکے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر تمھیں شیطان راستے میں چلتا ہوا دیکھ لے تو وہ اپنا راستہ تبدیل کرکے دوسرے راستے پر چلنے لگتا ہے۔‘‘