تشریح:
1۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ کے پہلے جواب میں اعمال صالحہ کے شرف کی طرف اشارہ تھا۔ جب لوگوں نے اس سے انکار کیا تو آپ نے نسب صالح کے اعتبار سے جو شرف حاصل ہوتا ہے اسے بیان فرمایا۔ جب لوگوں نے اسے بھی تسلیم نہ کیا تو آپ نے وہ صفات بیان فرمائیں جو انسان میں جبلی اور فطری طورپر موجود ہوتی ہیں۔ کسب کاان میں دخل نہیں ہوتا اور لوگ ان پر فخر بھی کرتے ہیں۔ پھر آپ نے دین کی فقاہت بیان کرکے حسب ونسب دونوں کو جمع کردیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہرحالت میں عالم دین کو شریف جاہل پرفوقیت حاصل ہے۔ 2۔بہرحال شرافت کی درجہ بندی یوں ہے کہ جو دور جاہلیت میں شریف النفس تھا اور اسلام لانے کے بعد بھی اس نے اپنی پیدائشی شرافت کو داغدار نہیں کیا، کیا وہ اللہ کے ہاں بلند مرتبہ ہے۔ اگر اس کے ساتھ دینی فقاہت و بصیرت بھی شامل ہوجائے تو اس کا مقام تو بہت اونچاہے، گویا سونے پر سہاگا ہے۔ البتہ بے دینی کی صورت میں شرافت نسبی کا کوئی مقام نہیں۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں صرف حسب ونسب ہی شرافت کا میعار بنا ہوا ہے خواہ وہ معاشرے میں رسہ گیرہی کیوں نہ ہو۔ واللہ المستعان۔