صحیح بخاری
60. کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
15. باب : اللہ تعالیٰ نے سورۃ حجر میں فرمایا‘ اے پیغمبر! ان لوگوں کو ابراہیم علیہ السلام کے مہمانوں کا قصہ سنائیے
باب : اللہ تعالیٰ نے سورۃ حجر میں فرمایا‘ اے پیغمبر! ان لوگوں کو ابراہیم علیہ السلام کے مہمانوں کا قصہ سنائیے
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: Allah's Statement: "And tell them about the guests of Ibrahim.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالی نے سورۃ بقرہ میں فرمایا ” اے میرے رب “ مجھے دکھا کہ تو مردوں کو زندہ کس طرح کرے گا لیکن یہ صرف میں اسلئے چاہتا ہوں کہ میرے دل کو اور زیادہ اطمینان ہوجائے ۔ “ تک تشریح :مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جویہ سوال بارگاہ الہیٰ میں کیا اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ کی قدرت میں کوئی شک تھا‘ معاذ اللہ ادنیٰ مومن کو بھی اس میں شک نہیں ہے تو ابراہیم علیہ السلام تو اللہ کے خاص خلیل تھے‘ ان کو کیونکر شک ہوسکتا تھا۔ غرض صرف یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مردوں کے جلائے جانے پر کامل یقین تھا مگر انہوں نے یہ چاہا کہ یہ یقین اور بڑھ جائے یعنی مشاہدہ بھی کرلیں۔ اس لئے کہ عین الیقین کا مرتبہ علم الیقین سے بڑھا ہوا ہے۔ مشہور قول ہے ” شنیدہ کے بود مانند دیدہ “ حضرت حافظ ابن حجر اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ سوال محض مزید درمزیداطمینان قلب کے حصول کے لئے تھا جیسا کہ خود قرآن مجید میں یہ بہ تفصیل موجود ہے۔ روی الطبرانی وابن ابی حاتم من طریق السدی قال لما اتخذ اللہ ابراھیم خلیلا استاذنہ ملک الموت ان یبشرہ فاذن لہ فذکر قصۃ معہ فی کیفیۃ قبض روح الکافروالمومن۔ قال فقام ابراہیم یدعو ربہ رب ارنی کیف تحتی الموتیٰ حتی اعلم انی خلیلک اومن طریق علی بن ابی طلحۃ عنہ لا علم انک تحبنی اذا دعوتک والی ھذا جنح القاضی ابو بکر الباقلانی ( فتح الباری ) یعنی جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا تو ملک الموت یہ بشارت دینے کے لیے ان کے پاس آئے اور ساتھ ہی انہوں نے کافر و مومن کی روحوں کو قبض کرنے کی کیفیت بھی سنائی۔ یہ سن کرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ پروردگار! مجھ کو بھی دکھلا کہ تو کس طرح مردوں کو زندہ کرے گا۔ میری یہ دعا قبول کرتا کہ میں جان لوں کہ میں تیرا خلیل ہوں۔ دوسری روایت کے مطابق یہ ہے کہ ” تاکہ میں جان لوں کہ تو مجھ کو دوست رکھتا ہے اور میں جب بھی تجھ سے کچھ دعا کروں گا تو ضرور تو اسے قبول کرلے گا۔ “ مزید تفصیلات کے لئے فتح الباری کے اس مقام کا مطالعہ کیا جائے۔
3394.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہم حضرت ابراہیم ؑ سے شک کرنے کے زیادہ حق دار تھے جب انھوں نے کہا: اےمیرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے؟ االلہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’کیا تجھے یقین نہیں ہے؟ حضرت ابراہیم ؑ نے عرض کیا: کیوں نہیں، (یقین ہے) لیکن چاہتا ہوں کہ میرے دل کو قرارآجائے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ حضرت لوط ؑ پر رحم فرمائے! وہ ایک زبردست رکن کی پناہ لینا چاہتے تھے۔ اور اگر میں قید خانے میں اتنا عرصہ رہتا جتنا حضرت یوسف ؑ رہے تو میں فوراً بلانے والے کی بات کو مان لیتا۔‘‘
تشریح:
1۔ حدیث کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ کا مردوں کو زندہ کرنے کا متعلق سوال کرنا شک کی بنیاد پر نہ تھا بلکہ وہ مشاہدے اور معائنے سے علم میں اضافہ چاہتے ہیں تھے کیونکہ آنکھوں دیکھی چیز سے جو معرفت اور طمانیت حاصل ہوتی ہے وہ استدلال سے نہیں ہوتی۔ دوسرے الفاظ میں وہ علم الیقین سے عین الیقن تک جانا چاہتے تھے حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر براہیم ؑ کا سوال شک کی بنا پر ہوتا تو ہم اس شک کے زیادہ حق دار تھے لیکن جب ہمیں شک نہیں تو وہ شک نہ کرنے کے زیادہ حق دارہیں لیکن ان کا سوال مشاہدے کے لیے تھا تاکہ کسی سے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اطمینان کے ساتھ اپنا اظہار مافی ضمیر کر سکیں۔ کہا جاتا ہے۔’’شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔‘‘ 2۔ اسی طرح حضرت لوط ؑ جو اپنے تبلیغی مرکز "سدوم" میں غریب الدیار تھے ان کا یہاں کوئی کنبہ قبیلہ نہیں تھا بیوی بھی کافر اور بے وفا تھی ایسے حالات میں معزز مہمانوں کے ساتھ قوم نے جو طوفان بد تمیزی اٹھایا وہ انسانی عزت و شرافت کے بالکل برعکس تھا۔ اس وقت حضرت لوط ؑ نے ظاہری اسباب کے فقدان کا اظہار ان الفاظ میں کیا: ’’کاش میرے پاس تمھارے مقابلے کے لیے قوت ہوتی یا کسی مضبوط سہارے کی طرف پناہ لے لیتا۔‘‘ یہ الفاظ سن کر فرشتےخاموش نہ رہ سکے اور کہنے لگے۔آپ اتنے پریشان نہ ہوں۔ ہم لڑکے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ ہمیں چھیڑنا تو درکنار تمھارا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ "قوۃ"سے مراد طاقت جو کسی کی مدد کے بغیر انھیں حاصل ہوا اور "رکن شدید" سے وہ قوت مراد ہے جو کسی دوسرے کی مدد سے حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو عالم اسباب بنایا ہے یہاں کوئی چیز اسباب سے خالی نہیں اللہ تعالیٰ تو ہر حال اور بہرمکان مددگار فریاد رس ہے رسول اللہ ﷺ نے ان کی مدح فرمائی کہ وہ تو زبردست رکن کی پناہ لینا چاہتے تھے مگر وہ جانتے تھے کہ اس در دنیا میں اعانت صرف دو میں منحصر ہے اپنی اور غیر کی۔ اس لیے ان دو کا ذکر فرمایا۔ بہر حال حضرت لوط ؑ کا مذکورہ الفاظ کہنا ظاہری اسباب کے اعتبار سے تھا بصورت دیگر ایک نبی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر قوم یا قبیلے سے کیسے مدد طلب کر سکتا ہے؟ 3۔ حضرت یوسف ؑ کے متعلق آپ نے جس قسم کے جذبات کا اظہار فرمایا وہ اپنی تواضع اور فروتنی کے طور پر فرمایا:آپ کے اندر تو صبر و استقلال بدرجہ اتم موجود تھا کسی نے سچ کہا ہے۔
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
بہر حال حضرت یوسف ؑ نے قید سے آزادی کو ٹھکرادیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ جب تک میرے اس جرم بے گناہ ہی کی تحقیق نہ ہو جائے اور میری پوری طرح بریت نہ ہو جائے میں قید سے باہر آنے کو تیار نہیں کیونکہ میں کسی ناواقف کے دل میں یہ شائبہ نہیں چاہتا کہ شاید اس معاملے میں یوسف ؑ کا بھی کچھ قصور تھا بہر حال رسول اللہ ﷺ نے حضرت یوسف ؑ کے صبر و تحمل اور ثابت قدمی و متانت کی تعریف کی ہے کہ اتنا عرصہ قید میں رہنے کے باوجود جلدی سے کام لے کر اپنی عزت پر حرف نہیں آنے دیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3244
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3372
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3372
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3372
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت حضرت ابراہیم علیہ السلام سے متعلق دو واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے ایک واقعے کے لیے تو صرف آیت کریمہ پر اکتفا کیا جبکہ دوسرے کے لیے آیت کریمہ کی تفسیر میں ایک حدیث بھی نقل کی ہے۔ پہلا واقعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معزز مہمانوں کا ہے دراصل جو فرشتے قوم لوط کی ہلاکت کے لیے بھیجے گئے تھے وہ پہلے سیدنا براہیم علیہ السلام کے پاس ایک بیٹے کی خوشخبری دینے کے لیے انسانی شکل میں آئے۔ آپ چونکہ بہت مہمان نواز تھے۔ اس لیے آپ نے ان سے نہیں پوچھا کہ جناب آپ کھانا تناول فرمائیں گے؟ کیونکہ عام طور پر ایسے موقع پر مہمان کہہ دیتے ہیں کہ پرباش تکلیف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ چپکے سے اپنے گھر تشریف لے گئے اور ایک موٹا تازہ بچھڑاذبح کر کے اسے بھون کر مہمانوں کی ضیافت کے لیے لے آئے ۔ جب فرشتوں نے کھانے کی طرف ہاتھ تک نہ بڑھائے تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو دال میں کچھ کالا کالا محسوس ہوا اور ان سے ڈرنے لگے۔ اس ڈر کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں۔(ا)عرب میں قبائلی دستور یہ تھا کہ اگر مہمان کھانا نہ کھاتا تو یہ خیال کیا جاتا کہ یہ کسی بری نیت سے آیا ہے۔ ایسا کرنے سے وہ نمک حرام نہیں بننا چاہتا تھا۔(ب)حضرت ابراہیم علیہ السلام کو معلوم ہو گیا کہ یہ انسان نہیں بلکہ فرشتے ہیں اور فرشتے غیر معمولی حالات کے سوا انسانی شکل میں نہیں آیا کرتے اس لیے آپ کو خوف لاحق ہوا کہ کوئی خوفناک معاملہ درپیش ہے۔ایک اور وجہ بھی ممکن ہے چونکہ فرشتے قوم لوط کو تباہ کرنے کی نیت سے آئے تھے اس لیے ان کے چہروں پر غصے کے آثار نمایاں تھے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خطرہ محسوس ہواشاید مجھ سے یااہل خانہ سے کوئی غلطی ہوگئی ہے جس کی وجہ سے یہ انسان غضب ناک دکھائی دے رہے ہیں۔ بہر حال فرشتوں کی وضاحت کے بعد آپ کا خوف دور ہو گیا۔ بہر حال اس واقعے کی تفصیل سورہ ہود سورہ حجر، سورہ عنکبوت اور سورۃذاریات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے چونکہ سورہ حجر کی آیت کا حوالہ دیا ہے اس لیے متعلقہ آیات کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔"اور آپ انھیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مہمانوں کا حال بتائیں جب وہ ان کے ہاں آئے تو انھوں نے ابراہیم علیہ السلام کو سلام ابراہیم علیہ السلام نے کہا:ہمیں تو تم سے ڈر لگتا ہے وہ کہنے لگے۔ڈرو نہیں ہم تمھیں ایک بہت بڑے صاحب علم لڑکے کی خوش خبری دیتے ہیں۔"(الحجر:15۔51۔53)
اور اللہ تعالی نے سورۃ بقرہ میں فرمایا ” اے میرے رب “ مجھے دکھا کہ تو مردوں کو زندہ کس طرح کرے گا لیکن یہ صرف میں اسلئے چاہتا ہوں کہ میرے دل کو اور زیادہ اطمینان ہوجائے ۔ “ تک تشریح :مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جویہ سوال بارگاہ الہیٰ میں کیا اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ کی قدرت میں کوئی شک تھا‘ معاذ اللہ ادنیٰ مومن کو بھی اس میں شک نہیں ہے تو ابراہیم علیہ السلام تو اللہ کے خاص خلیل تھے‘ ان کو کیونکر شک ہوسکتا تھا۔ غرض صرف یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مردوں کے جلائے جانے پر کامل یقین تھا مگر انہوں نے یہ چاہا کہ یہ یقین اور بڑھ جائے یعنی مشاہدہ بھی کرلیں۔ اس لئے کہ عین الیقین کا مرتبہ علم الیقین سے بڑھا ہوا ہے۔ مشہور قول ہے ” شنیدہ کے بود مانند دیدہ “ حضرت حافظ ابن حجر اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ سوال محض مزید درمزیداطمینان قلب کے حصول کے لئے تھا جیسا کہ خود قرآن مجید میں یہ بہ تفصیل موجود ہے۔ روی الطبرانی وابن ابی حاتم من طریق السدی قال لما اتخذ اللہ ابراھیم خلیلا استاذنہ ملک الموت ان یبشرہ فاذن لہ فذکر قصۃ معہ فی کیفیۃ قبض روح الکافروالمومن۔ قال فقام ابراہیم یدعو ربہ رب ارنی کیف تحتی الموتیٰ حتی اعلم انی خلیلک اومن طریق علی بن ابی طلحۃ عنہ لا علم انک تحبنی اذا دعوتک والی ھذا جنح القاضی ابو بکر الباقلانی ( فتح الباری ) یعنی جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا تو ملک الموت یہ بشارت دینے کے لیے ان کے پاس آئے اور ساتھ ہی انہوں نے کافر و مومن کی روحوں کو قبض کرنے کی کیفیت بھی سنائی۔ یہ سن کرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ پروردگار! مجھ کو بھی دکھلا کہ تو کس طرح مردوں کو زندہ کرے گا۔ میری یہ دعا قبول کرتا کہ میں جان لوں کہ میں تیرا خلیل ہوں۔ دوسری روایت کے مطابق یہ ہے کہ ” تاکہ میں جان لوں کہ تو مجھ کو دوست رکھتا ہے اور میں جب بھی تجھ سے کچھ دعا کروں گا تو ضرور تو اسے قبول کرلے گا۔ “ مزید تفصیلات کے لئے فتح الباری کے اس مقام کا مطالعہ کیا جائے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہم حضرت ابراہیم ؑ سے شک کرنے کے زیادہ حق دار تھے جب انھوں نے کہا: اےمیرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے؟ االلہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’کیا تجھے یقین نہیں ہے؟حضرت ابراہیم ؑ نے عرض کیا: کیوں نہیں، (یقین ہے) لیکن چاہتا ہوں کہ میرے دل کو قرارآجائے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ حضرت لوط ؑ پر رحم فرمائے! وہ ایک زبردست رکن کی پناہ لینا چاہتے تھے۔ اور اگر میں قید خانے میں اتنا عرصہ رہتا جتنا حضرت یوسف ؑ رہے تو میں فوراً بلانے والے کی بات کو مان لیتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ حدیث کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ کا مردوں کو زندہ کرنے کا متعلق سوال کرنا شک کی بنیاد پر نہ تھا بلکہ وہ مشاہدے اور معائنے سے علم میں اضافہ چاہتے ہیں تھے کیونکہ آنکھوں دیکھی چیز سے جو معرفت اور طمانیت حاصل ہوتی ہے وہ استدلال سے نہیں ہوتی۔ دوسرے الفاظ میں وہ علم الیقین سے عین الیقن تک جانا چاہتے تھے حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر براہیم ؑ کا سوال شک کی بنا پر ہوتا تو ہم اس شک کے زیادہ حق دار تھے لیکن جب ہمیں شک نہیں تو وہ شک نہ کرنے کے زیادہ حق دارہیں لیکن ان کا سوال مشاہدے کے لیے تھا تاکہ کسی سے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اطمینان کے ساتھ اپنا اظہار مافی ضمیر کر سکیں۔ کہا جاتا ہے۔’’شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔‘‘ 2۔ اسی طرح حضرت لوط ؑ جو اپنے تبلیغی مرکز "سدوم" میں غریب الدیار تھے ان کا یہاں کوئی کنبہ قبیلہ نہیں تھا بیوی بھی کافر اور بے وفا تھی ایسے حالات میں معزز مہمانوں کے ساتھ قوم نے جو طوفان بد تمیزی اٹھایا وہ انسانی عزت و شرافت کے بالکل برعکس تھا۔ اس وقت حضرت لوط ؑ نے ظاہری اسباب کے فقدان کا اظہار ان الفاظ میں کیا: ’’کاش میرے پاس تمھارے مقابلے کے لیے قوت ہوتی یا کسی مضبوط سہارے کی طرف پناہ لے لیتا۔‘‘ یہ الفاظ سن کر فرشتےخاموش نہ رہ سکے اور کہنے لگے۔آپ اتنے پریشان نہ ہوں۔ ہم لڑکے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ ہمیں چھیڑنا تو درکنار تمھارا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ "قوۃ"سے مراد طاقت جو کسی کی مدد کے بغیر انھیں حاصل ہوا اور "رکن شدید" سے وہ قوت مراد ہے جو کسی دوسرے کی مدد سے حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو عالم اسباب بنایا ہے یہاں کوئی چیز اسباب سے خالی نہیں اللہ تعالیٰ تو ہر حال اور بہرمکان مددگار فریاد رس ہے رسول اللہ ﷺ نے ان کی مدح فرمائی کہ وہ تو زبردست رکن کی پناہ لینا چاہتے تھے مگر وہ جانتے تھے کہ اس در دنیا میں اعانت صرف دو میں منحصر ہے اپنی اور غیر کی۔ اس لیے ان دو کا ذکر فرمایا۔ بہر حال حضرت لوط ؑ کا مذکورہ الفاظ کہنا ظاہری اسباب کے اعتبار سے تھا بصورت دیگر ایک نبی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر قوم یا قبیلے سے کیسے مدد طلب کر سکتا ہے؟ 3۔ حضرت یوسف ؑ کے متعلق آپ نے جس قسم کے جذبات کا اظہار فرمایا وہ اپنی تواضع اور فروتنی کے طور پر فرمایا:آپ کے اندر تو صبر و استقلال بدرجہ اتم موجود تھا کسی نے سچ کہا ہے۔
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
بہر حال حضرت یوسف ؑ نے قید سے آزادی کو ٹھکرادیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ جب تک میرے اس جرم بے گناہ ہی کی تحقیق نہ ہو جائے اور میری پوری طرح بریت نہ ہو جائے میں قید سے باہر آنے کو تیار نہیں کیونکہ میں کسی ناواقف کے دل میں یہ شائبہ نہیں چاہتا کہ شاید اس معاملے میں یوسف ؑ کا بھی کچھ قصور تھا بہر حال رسول اللہ ﷺ نے حضرت یوسف ؑ کے صبر و تحمل اور ثابت قدمی و متانت کی تعریف کی ہے کہ اتنا عرصہ قید میں رہنے کے باوجود جلدی سے کام لے کر اپنی عزت پر حرف نہیں آنے دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی‘ انہیں ابن شہاب نے‘ انہیں ابو سلمہ بن عبدالرحمن اور سعید بن مسیب نے ‘ انہیں حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ ہم حضرت ابراہیم ؑ کے مقابلے میں شک کرنے کے زیادہ مستحق ہیں جب کہ انہوں نے کہا تھا کہ میرے رب! مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا‘ کہا کیاتم ایمان نہیں لائے‘ انہوں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں‘ لیکن یہ صرف اس لئے تاکہ میرے دل کو اور زیادہ اطمینان ہوجائے اور اللہ لوط ؑ پر کہ وہ زبردست رکن (یعنی خداوندکریم) کی پناہ لیتے تھے اور اگر میں اتنی مدت تک قید خانے میں رہتا جتنی مدت تک یوسف ؑ رہے تھے تو میں بلانے والے کے بات ضرور مان لیتا۔
حدیث حاشیہ:
یعنی قید سے چھوٹنا غنیمت سمجھتا۔ حضرت یوسف ؑ کے صبر پر آفرین ہے کہ اتنی مدت تک قید میں رہنے کے بعد بھی اس بلانے والے کے بلاوے پر نہ نکلے جو بادشاہ کی طرف سے آیا تھا اور پہلے اپنی صفائی کے خواہاں ہوئے۔ یہ آنحضرت ﷺ نے تواضع کی راہ سے فرمایا اور حضرت یوسف ؑ کا مرتبہ بڑھانے کے لئے۔ ورنہ آنحضرت ﷺ صبرواستقلال بھی کچھ کم نہ تھا۔
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "We are more liable to be in doubt than Abraham when he said, 'My Lord! Show me how You give life to the dead." . He (i.e. Allah) slid: 'Don't you believe then?' He (i.e. Abraham) said: "Yes, but (I ask) in order to be stronger in Faith." (2.260) And may Allah send His Mercy on Lot! He wished to have a powerful support. If I were to stay in prison for such a long time as Joseph did I would have accepted the offer (of freedom without insisting on having my guiltless less declared)."