Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: The signs of a hypocrite)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
34.
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’چار باتیں جس میں ہوں گی وہ تو خالص منافق ہو گا اور جس میں ان میں سے کوئی ایک بھی ہو گی، اس میں نفاق کی ایک خصلت ہو گی یہاں تک کہ وہ اسے ترک کر دے: جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب عہد کرے تو دغا بازی کرے اور جھگڑے تو بے ہودہ بکواس کرے۔‘‘ اس حدیث کو شعبہ نے بھی اعمش سے روایت کرنے میں (سفیان کی) متابعت کی ہے۔
تشریح:
1۔ شرک، ظلم کا فرد اعلیٰ ہے اور نفاق، کفرکا فرد اعلیٰ ہے اس میں کفر باللہ کے ساتھ مسلمانوں کو دھوکا دینا بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام کفار کے مقابلے میں اس کی سزا بھی سخت رکھی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ﴾ ’’بلا شبہ منافقین دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔‘‘(النساء:4/145) اسی مناسبت کی بنا پر کفر سے متعلقہ ابواب کے اختتام پر اسے ذکر کیا گیا ہے۔ پھر نفاق کی دوقسمیں ہیں۔ ایک نفاق تو ایمان و عقیدے کا ہوتا ہے جو کفر کی بدترین قسم ہے جس کی نشاندہی صرف وحی سے ممکن ہے۔ دوسرا عملی نفاق ہے جسے سیرت و کردار کا نفاق بھی کہتے ہیں واضح رہے کہ نفاق میں بھی کفر اور ظلم کی طرح مراتب ہیں بعض ادنیٰ ہیں اور بعض اعلیٰ، اعلیٰ مرتبہ تو نفاق اعتقادی کا ہے جس کا کفر ہونا محتاج بیان نہیں باقی مراتب عملی مراتب نفاق کے ہیں اور ان میں درجات کا تفاوت ہے جب ایمان کے اضداد میں یہ مراتب قائم ہیں تو ایمان میں بھی ضرور ہونے چاہئیں لہٰذا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد واضح ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے اور معاصی ایمان کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور نقصان کیا ہو سکتا ہے کہ احادیث میں بیان کردہ افعال قبیحہ کے ارتکاب سے انسان زمرہ منافقین میں آجاتا ہے۔ 2۔ نفاق کے معنی ظاہر و باطن کے اختلاف کے ہیں۔ یہ لفظ دراصل نافقاء سے لیا گیا ہے جو چوہے کی طرح ایک جانور کے بل کے پوشیدہ دروازے کا نام ہے جو بظاہر ہموار زمین کی طرح نظر آتاہے منافق بھی بظاہرمسلمان نظرآتا ہے مگراندورنی طور پر اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا محض دھوکا دینے کے لیے یہ روپ اختیار کرتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَإِذَا جَاءُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَقَدْ دَخَلُوا بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا بِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا يَكْتُمُونَ﴾’’اور جب وہ تمھارےپاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے حالانکہ وہ کفر لیے آئے تھےاور اس کفر کے ساتھ ہی واپس ہو گئے۔ اور جو کچھ یہ چھپا رہے ہیں، اسے اللہ خوب جانتا ہے۔‘‘ (المائدة: 61/5 وشرح الکرماني: 147/1) 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ موقف نہیں ہے کہ ان خصائل کے اختیار کرنے سے ایک مومن انسان منافق بن جاتا ہے بلکہ ان کا مرتکب اس انسان کے اعتبار سے منافق ہے جس کے ساتھ نقض عہد کیا ہے۔ جس سے وعدہ خلافی کی ہے۔ جس کی امانت میں خیانت کی ہے کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں اصطلاح نفاق کو بیان نہیں فرما رہے بلکہ وہ ایمان میں کمی بیشی کے اثبات کے لیے کفروظلم میں کمی بیشی کا اثبات کر چکے ہیں اور اب نفاق میں اس کمی بیشی کا اثبات چاہتے ہیں تاکہ نفاق کے درجات کے اثبات سے ایمان میں بھی درجات کا اثبات کیا جائے نیز ان چیزوں کو نفاق کی علت نہیں کہا گیا کہ جس کی موجودگی میں معلول کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے بلکہ یہاں انھیں صرف علامت قراردیا گیا ہے اور ضروری نہیں کہ جہاں علامت موجود ہو وہاں اصل شئے بھی پائی جائے جیسے نبض کی تیزی بخار کی علامت ہے مگر کبھی قوت نفس کی بنا پر بھی نبض تیز ہو جاتی ہے۔ 4۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں نفاق کی تین علامتیں بیان ہوئی ہیں اور حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نفاق کی چار علامتیں ہیں ان چار میں دو علامتیں تو پہلی روایت کی ہیں اور دو علامتیں مزید ہیں۔ اس طرح کل پانچ علامتیں ہو جاتی ہیں۔1۔ دروغ گوئی 2۔ خیانت 3۔ وعدہ خلافی 4۔ عہد شکنی 5۔فجور۔ اگر غور کیا جائےتو ان پانچوں کو تین ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے کیونکہ وعدہ خلافی اور عہد شکنی میں مصداق کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ اسی طرح فجوربھی دروغ گوئی کے تحت آسکتا ہے۔ ایسی صورت میں تین ہی خصلتیں باقی رہ جاتی ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کےاسلوب بیان سے معلوم ہو رہا ہے کہ علامات نفاق کا انحصار تین ہی میں ہے۔ کذب بیانی سے فساد قول، خیانت سے فساد عمل اور وعدہ خلافی سے فساد نیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ فساد نیت پر استدلال اس طرح ہے کہ وعدہ خلافی وہی معیوب ہے جس میں وعدہ کرتے وقت یہ نیت کرلی گئی ہو کہ اسے پورا نہیں کرنا ہے اور اگر پورا کرنے کی نیت ہو اور کوشش کے باوجود اس کا ایفا نہ ہو سکے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں۔ ( فتح الباري: 122/1) 5۔ روایت کے آخر میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اعمش سے بیان کرنے میں شعبہ نے سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی متابعت کی ہے۔ اس متابعت کے بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ قبیصہ عن سفیان کے طریق کو امام یحییٰ بن معین نے ضعیف قراردیا ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواب دیا ہے کہ جب اس کی متابعت موجود ہے تو اس طریق کو ضعیف قراردینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے، چنانچہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے قبیصہ کے طریق کے علاوہ وکیع (حدَّثنا) سفیان کا طریق بیان کیا ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 210(58)) پھر اعمش سے سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ شعبہ نے بھی اس روایت کو بیان کیا ہے جسے خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب المظالم میں ذکر کیا ہے۔ (دیکھئے حدیث نمبر2458)۔ لہٰذا اس روایت کے قابل حجت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ ( فتح الباري: 123/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
34
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
34
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
34
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
34
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’چار باتیں جس میں ہوں گی وہ تو خالص منافق ہو گا اور جس میں ان میں سے کوئی ایک بھی ہو گی، اس میں نفاق کی ایک خصلت ہو گی یہاں تک کہ وہ اسے ترک کر دے: جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب عہد کرے تو دغا بازی کرے اور جھگڑے تو بے ہودہ بکواس کرے۔‘‘ اس حدیث کو شعبہ نے بھی اعمش سے روایت کرنے میں (سفیان کی) متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ شرک، ظلم کا فرد اعلیٰ ہے اور نفاق، کفرکا فرد اعلیٰ ہے اس میں کفر باللہ کے ساتھ مسلمانوں کو دھوکا دینا بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام کفار کے مقابلے میں اس کی سزا بھی سخت رکھی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ﴾ ’’بلا شبہ منافقین دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔‘‘(النساء:4/145) اسی مناسبت کی بنا پر کفر سے متعلقہ ابواب کے اختتام پر اسے ذکر کیا گیا ہے۔ پھر نفاق کی دوقسمیں ہیں۔ ایک نفاق تو ایمان و عقیدے کا ہوتا ہے جو کفر کی بدترین قسم ہے جس کی نشاندہی صرف وحی سے ممکن ہے۔ دوسرا عملی نفاق ہے جسے سیرت و کردار کا نفاق بھی کہتے ہیں واضح رہے کہ نفاق میں بھی کفر اور ظلم کی طرح مراتب ہیں بعض ادنیٰ ہیں اور بعض اعلیٰ، اعلیٰ مرتبہ تو نفاق اعتقادی کا ہے جس کا کفر ہونا محتاج بیان نہیں باقی مراتب عملی مراتب نفاق کے ہیں اور ان میں درجات کا تفاوت ہے جب ایمان کے اضداد میں یہ مراتب قائم ہیں تو ایمان میں بھی ضرور ہونے چاہئیں لہٰذا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد واضح ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے اور معاصی ایمان کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور نقصان کیا ہو سکتا ہے کہ احادیث میں بیان کردہ افعال قبیحہ کے ارتکاب سے انسان زمرہ منافقین میں آجاتا ہے۔ 2۔ نفاق کے معنی ظاہر و باطن کے اختلاف کے ہیں۔ یہ لفظ دراصل نافقاء سے لیا گیا ہے جو چوہے کی طرح ایک جانور کے بل کے پوشیدہ دروازے کا نام ہے جو بظاہر ہموار زمین کی طرح نظر آتاہے منافق بھی بظاہرمسلمان نظرآتا ہے مگراندورنی طور پر اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا محض دھوکا دینے کے لیے یہ روپ اختیار کرتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَإِذَا جَاءُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَقَدْ دَخَلُوا بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا بِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا يَكْتُمُونَ﴾’’اور جب وہ تمھارےپاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے حالانکہ وہ کفر لیے آئے تھےاور اس کفر کے ساتھ ہی واپس ہو گئے۔ اور جو کچھ یہ چھپا رہے ہیں، اسے اللہ خوب جانتا ہے۔‘‘ (المائدة: 61/5 وشرح الکرماني: 147/1) 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ موقف نہیں ہے کہ ان خصائل کے اختیار کرنے سے ایک مومن انسان منافق بن جاتا ہے بلکہ ان کا مرتکب اس انسان کے اعتبار سے منافق ہے جس کے ساتھ نقض عہد کیا ہے۔ جس سے وعدہ خلافی کی ہے۔ جس کی امانت میں خیانت کی ہے کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں اصطلاح نفاق کو بیان نہیں فرما رہے بلکہ وہ ایمان میں کمی بیشی کے اثبات کے لیے کفروظلم میں کمی بیشی کا اثبات کر چکے ہیں اور اب نفاق میں اس کمی بیشی کا اثبات چاہتے ہیں تاکہ نفاق کے درجات کے اثبات سے ایمان میں بھی درجات کا اثبات کیا جائے نیز ان چیزوں کو نفاق کی علت نہیں کہا گیا کہ جس کی موجودگی میں معلول کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے بلکہ یہاں انھیں صرف علامت قراردیا گیا ہے اور ضروری نہیں کہ جہاں علامت موجود ہو وہاں اصل شئے بھی پائی جائے جیسے نبض کی تیزی بخار کی علامت ہے مگر کبھی قوت نفس کی بنا پر بھی نبض تیز ہو جاتی ہے۔ 4۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں نفاق کی تین علامتیں بیان ہوئی ہیں اور حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نفاق کی چار علامتیں ہیں ان چار میں دو علامتیں تو پہلی روایت کی ہیں اور دو علامتیں مزید ہیں۔ اس طرح کل پانچ علامتیں ہو جاتی ہیں۔1۔ دروغ گوئی 2۔ خیانت 3۔ وعدہ خلافی 4۔ عہد شکنی 5۔فجور۔ اگر غور کیا جائےتو ان پانچوں کو تین ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے کیونکہ وعدہ خلافی اور عہد شکنی میں مصداق کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ اسی طرح فجوربھی دروغ گوئی کے تحت آسکتا ہے۔ ایسی صورت میں تین ہی خصلتیں باقی رہ جاتی ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کےاسلوب بیان سے معلوم ہو رہا ہے کہ علامات نفاق کا انحصار تین ہی میں ہے۔ کذب بیانی سے فساد قول، خیانت سے فساد عمل اور وعدہ خلافی سے فساد نیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ فساد نیت پر استدلال اس طرح ہے کہ وعدہ خلافی وہی معیوب ہے جس میں وعدہ کرتے وقت یہ نیت کرلی گئی ہو کہ اسے پورا نہیں کرنا ہے اور اگر پورا کرنے کی نیت ہو اور کوشش کے باوجود اس کا ایفا نہ ہو سکے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں۔ ( فتح الباري: 122/1) 5۔ روایت کے آخر میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اعمش سے بیان کرنے میں شعبہ نے سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی متابعت کی ہے۔ اس متابعت کے بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ قبیصہ عن سفیان کے طریق کو امام یحییٰ بن معین نے ضعیف قراردیا ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواب دیا ہے کہ جب اس کی متابعت موجود ہے تو اس طریق کو ضعیف قراردینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے، چنانچہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے قبیصہ کے طریق کے علاوہ وکیع (حدَّثنا) سفیان کا طریق بیان کیا ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 210(58)) پھر اعمش سے سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ شعبہ نے بھی اس روایت کو بیان کیا ہے جسے خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب المظالم میں ذکر کیا ہے۔ (دیکھئے حدیث نمبر2458)۔ لہٰذا اس روایت کے قابل حجت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ ( فتح الباري: 123/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے یہ حدیث بیان کی، ان سے سفیان نے، وہ اعمش بن عبیداللہ بن مرہ سے نقل کرتے ہیں، وہ مسروق سے، وہ عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ ( بھی) نفاق ہی ہے، جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔ ( وہ یہ ہیں ) جب اسے امین بنایا جائے تو ( امانت میں ) خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب ( کسی سے ) عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب (کسی سے ) لڑے تو گالیوں پر اتر آئے۔‘‘ اس حدیث کو شعبہ نے ( بھی ) سفیان کے ساتھ اعمش سے روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
پہلی حدیث میں اور دوسری میں کوئی تعارض نہیں۔ اس لیے کہ اس حدیث میں ’’منافق خالص‘‘ کے الفاظ ہیں، مطلب یہ ہے کہ جس میں چوتھی عادت بھی ہو کہ لڑائی کے وقت گالیاں بکنا شروع کرے تو اس کا نفاق ہرطرح سے مکمل ہے اور اس کی عملی زندگی سراسر نفاق کی زندگی ہے اور جس میں صرف ایک عادت ہو، تو بہرحال نفاق تو وہ بھی ہے۔ مگرکم درجے کا ہے۔ حضرت امام بخاری کا مقصد ایمان کی کمی وبیشی ثابت کرنا ہے جوان احادیث سے ظاہر ہے نیز یہ بتلانا بھی کہ معاصی سے ایمان میں نقصان آ جاتا ہے۔ ان احادیث میں نفاق کی جتنی علامتیں ذکر ہوئی ہیں وہ عمل سے تعلق رکھتی ہیں۔ یعنی مسلمان ہونے کے بعد پھرعمل میں نفاق کا مظاہرہ ہو اور اگرنفاق قلب ہی میں ہے یعنی سرے سے ایمان ہی موجود نہیں اور محض زبان سے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کررہا ہے تو وہ نفاق تویقیناً کفروشرک ہی کے برابرہے۔ بلکہ ان سے بڑھ کر۔ آیت شریفہ﴿إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ﴾(النساء: 145)یعنی منافقین دوزخ کے نیچے والے درجے میں ہوں گے۔یہ ایسے ہی اعتقادی منافقوں کے بارے میں ہے۔ البتہ نفاق کی جو علامتیں عمل میں پائی جائیں، ان کا مطلب بھی یہ ہی ہے کہ قلب کا اعتقاد اور ایمان کا پودا کمزورہے اور اس میں نفاق کا گھن لگا ہوا ہو خواہ وہ ظاہری طور پر مسلمان بنا ہوا ہو، اس کو عملی نفاق کہتے ہیں۔ نفاق کے معنی ظاہر وباطن کے اختلاف کے ہیں۔ شرع میں منافق اس کو کہتے ہیں جس کا باطن کفر سے بھرپور ہو اور ظاہر میں وہ مسلمان بنا ہوا ہو۔ رہا ظاہری عادات مذکورہ کا اثر سو یہ بات متفق علیہ ہے کہ محض ان خصائل ذمیمہ سے مومن منافق نہیں بن سکتا۔ وہ مومن ہی رہتا ہے۔ امانت سے مراد امانت الٰہی یعنی حدوداسلامی ہیں۔ اللہ نے قرآن پاک میں اسی کے بارے میں فرمایا ہے۔ ﴿إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ﴾ (الاحزاب: 72) یعنی ہم نے اپنی امانت کو آسمان و زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا مگرانھوں نے اپنی کمزوریوں کو دیکھ کر اس بار امانت کے اٹھانے سے انکار کردیا۔مگرانسان نے اس کے لیے اقرار کرلیا۔ اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ کتنا بڑا بوجھ ہے اس کے بعد باہمی طور پر ہرقسم کی امانت مرادہیں، وہ مالی ہوں یاجانی یا قولی، ان سب کو ملحوظ خاطر رکھنا اور پورے طور پر ان کی حفاظت کرنا ایمان کی پختگی کی دلیل ہے۔ بات بات میں جھوٹ بولنا بھی بڑی مذموم عادت ہے۔ خدا ہر مسلمان کو بچائے۔ آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Amr (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Whoever has the following four (characteristics) will be a pure hypocrite and whoever has one of the following four characteristics will have one characteristic of hypocrisy unless and until he gives it up. 1. Whenever he is entrusted, he betrays. 2. Whenever he speaks, he tells a lie. 3. Whenever he makes a covenant, he proves treacherous. 4. Whenever he quarrels, he behaves in a very imprudent, evil and insulting manner."