صحیح بخاری
60. کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
23. باب : ( حضرت یوسف ؑ کا بیان ) اللہ پاک نے فرمایا کہ بیشک یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات میں پوچھنے والوں کیلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں
باب : ( حضرت یوسف ؑ کا بیان ) اللہ پاک نے فرمایا کہ بیشک یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات میں پوچھنے والوں کیلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "Verily, in Yusuf and his brethren there were Ayat...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3411.
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اس آیت کے متعلق سوال کیا: ﴿حَتَّىٰ إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ﴾ والی آیت میں كُذِبُوا تشدید کے ساتھ ہے یا بغیر تشدید کے؟ انھوں نے فرمایا : (تشدید کے ساتھ ہے اور مطلب یہ ہےکہ) ان کی قوم نے انھیں جھٹلایا تھا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کی قسم! انھیں تو یقین تھا کہ ان کی قوم انھیں جھٹلا رہی ہے پھر لفظ "ظن"کیوں استعمال ہوا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: اے چھوٹے سے عروہ! بلاشبہ ان کو تو اس کا یقین تھا۔ میں نے عرض کیا: شاید یہ لفظ تشدید کے بغیر ہو، یعنی پیغمبروں نےخیال کیا کہ ان کے ساتھ جو مدد کا وعدہ کیا گیا تھا وہ صحیح نہیں تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: معاذ اللہ! انبیائے کرام اپنے رب کے متعلق ایسا گمان ہر گز نہیں کر سکتے، البتہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ رسولوں کے اتباع (پیروکار ) جواپنے پر ایمان لائے تھے اور انھوں نے اپنے رسول کی تصدیق کی تھی، وہ جب عرصہ دراز تک آزمائش میں رہے اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوئی اور انبیائے کرام بھی اپنی قوم کے جھٹلائے والوں (کے ایمان لانے) سے ناامید ہو گئے، انھوں نے یہ گمان کیا کہ جو لوگ انھیں ماننے والے ہیں اب وہ بھی انھیں جھوٹا سمجھنے لگیں گے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی مدد آپہنچی۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری ؒ)نے کہا {اسْتَيْأَسُوا} استفعلواکے وزن پر ہے جو يَئِسْتُ مِنْهُ سے نکلا ہے۔ برادران یوسف، حضرت یوسف سے ناامید ہو گئے تھے۔ ﴿وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّهِ﴾ اللہ کی رحمت سے ناامید نہ رہو بلکہ امید وار رہو۔
تشریح:
1۔ آیت کریمہ میں ﴿فَقَدْ كَذَّبُوا﴾ کو دو طرح سے پڑھا گیا ہے تشدید سے اس کے معنی ہیں۔ ’’انبیائے کرام کی تکذیب کی گئی۔‘‘ دوسرا تشدید کے بغیرجس کے معنی ہیں، ’’ان سے عدہ خلافی کی گئی۔‘‘ حضرت عائشہ ؓنے اسے تشدید کے ساتھ پڑھا اور حدیث میں اس کے معنی متعین کیے کہ انبیائے کرام کو ان کی قوم نے جھٹلایا تھا۔ حضرت عروہ نے عرض کیا: اگر اس کے معنی قوم کا جھٹلانا ہے تو اس میں ظن و گمان کی کیا بات ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا اس مقام پر ظن یقین کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دوسری قراءت سے انکار نہیں کیا بلکہ ان کے نزدیک اس صورت میں یہ معنی ہوں گےکہ حضرات انبیائے کرام ؑ کو اپنے پیروکاروں کے متعلق یہ گمان ہوا کہ شاید وہ بھی وہ انھیں جھوٹا خیال کریں گے یعنی کذب بیانی یا وعدہ خلافی کی نسبت اللہ کی طرف نہیں بلکہ انبیائے کرام ؑ کے متبعین کی طرف ہوگی دراصل اس آیت کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف ہے جب رسول مایوس ہو گئے اور انھوں نے گمان کیا کہ ان سے جھوٹا وعدہ کیا گیا تھا تو اس وقت ان کے پاس اللہ کی مدد آپہنچی۔ حضرت عروہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مذکورہ موقف جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کیا تو آپ نے وضاحت فرمائی۔ یہ کوئی فقہی اختلاف نہیں بلکہ قرآءت کے اختلاف کی وجہ سے اس آیت کے معنی میں اختلاف ہوا ایک نظریاتی موقف کی وضاحت مطلوب ہے۔ اس کی تفصیل ہم کتاب التفسیر میں بیان کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔ 2۔ حضرت یوسف ؑ بلاوجہ سات سال تک جیل میں پڑے رہے ایسے حالات میں انسان مایوس ہو جاتا ہے۔ پھر اللہ کی مدد آئی اور ان کی رہائی کا سبب پیدا ہواچونکہ مذکورہ آیت سورہ یوسف میں ہے اور خود ان کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پیش آیا اس لیے امام بخاری ؒ نے اس روایت کو یہاں ذکر کیا ہے۔ (فتح الباري:509/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3261
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3389
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3389
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3389
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
اہل مکہ نے یہود مدینہ سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا سوال بتاؤ جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو لاجواب کردے اور ان کی نبوت کا بھرم کھل جائے۔ انھوں نے سوچ کر ایک تاریخی قسم کا سوال اہل مکہ کو بتایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ،حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کا مسکن تو شام و فلسطین کا علاقہ تھا پھر حضرت یعقوب علیہ السلام (اسرائیل)کی اولاد مصر کیسے جا پہنچی جنھیں اہل مصر (فرعون) کی غلامی سے آزاد کرانے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام بھیجے گئے تھے؟کفار مکہ کے سوال کے جواب میں سورہ یوسف پوری کی پوری نازل ہوگئی اور حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کے جواب سے نہ تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگاہ تھے اورنہ اہل مکہ کو اس کا علم ہی تھا۔اس سورت میں حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات زندگی کی پوری داستان بھی آگئی اور کئی ایسی باتوں کی طرف واضح اشارات بھی آگئے۔جو کفار مکہ اور بردران یوسف کے درمیان مشترک طور پر پائے جاتے تھے اور اس میں کفار مکہ کے لیے عبرت کے کئی نشان بھی تھے۔ پہلا نشان تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت تھی کہ آپ نے فوراً ان کے سوال کا جواب دے کرثابت کردیا کہ آپ فی الحقیقت اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ کیونکہ وحی الٰہی کے علاوہ آپ کے پاس معلومات حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا لیکن پھر بھی یہ لوگ مسلمان نہ ہوئے بلکہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔ واضح رہے کہ عنوان میں سوال کرنے والوں سے مراد اہل مکہ ہیں۔
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اس آیت کے متعلق سوال کیا: ﴿حَتَّىٰ إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ﴾ والی آیت میں كُذِبُوا تشدید کے ساتھ ہے یا بغیر تشدید کے؟ انھوں نے فرمایا : (تشدید کے ساتھ ہے اور مطلب یہ ہےکہ) ان کی قوم نے انھیں جھٹلایا تھا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کی قسم! انھیں تو یقین تھا کہ ان کی قوم انھیں جھٹلا رہی ہے پھر لفظ "ظن"کیوں استعمال ہوا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: اے چھوٹے سے عروہ! بلاشبہ ان کو تو اس کا یقین تھا۔ میں نے عرض کیا: شاید یہ لفظ تشدید کے بغیر ہو، یعنی پیغمبروں نےخیال کیا کہ ان کے ساتھ جو مدد کا وعدہ کیا گیا تھا وہ صحیح نہیں تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: معاذ اللہ! انبیائے کرام اپنے رب کے متعلق ایسا گمان ہر گز نہیں کر سکتے، البتہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ رسولوں کے اتباع (پیروکار ) جواپنے پر ایمان لائے تھے اور انھوں نے اپنے رسول کی تصدیق کی تھی، وہ جب عرصہ دراز تک آزمائش میں رہے اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوئی اور انبیائے کرام بھی اپنی قوم کے جھٹلائے والوں (کے ایمان لانے) سے ناامید ہو گئے، انھوں نے یہ گمان کیا کہ جو لوگ انھیں ماننے والے ہیں اب وہ بھی انھیں جھوٹا سمجھنے لگیں گے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی مدد آپہنچی۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری ؒ)نے کہا {اسْتَيْأَسُوا}استفعلواکے وزن پر ہے جو يَئِسْتُ مِنْهُ سے نکلا ہے۔ برادران یوسف، حضرت یوسف سے ناامید ہو گئے تھے۔ ﴿وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّهِ﴾اللہ کی رحمت سے ناامید نہ رہو بلکہ امید وار رہو۔
حدیث حاشیہ:
1۔ آیت کریمہ میں ﴿فَقَدْ كَذَّبُوا﴾ کو دو طرح سے پڑھا گیا ہے تشدید سے اس کے معنی ہیں۔ ’’انبیائے کرام کی تکذیب کی گئی۔‘‘ دوسرا تشدید کے بغیرجس کے معنی ہیں، ’’ان سے عدہ خلافی کی گئی۔‘‘ حضرت عائشہ ؓنے اسے تشدید کے ساتھ پڑھا اور حدیث میں اس کے معنی متعین کیے کہ انبیائے کرام کو ان کی قوم نے جھٹلایا تھا۔ حضرت عروہ نے عرض کیا: اگر اس کے معنی قوم کا جھٹلانا ہے تو اس میں ظن و گمان کی کیا بات ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا اس مقام پر ظن یقین کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دوسری قراءت سے انکار نہیں کیا بلکہ ان کے نزدیک اس صورت میں یہ معنی ہوں گےکہ حضرات انبیائے کرام ؑ کو اپنے پیروکاروں کے متعلق یہ گمان ہوا کہ شاید وہ بھی وہ انھیں جھوٹا خیال کریں گے یعنی کذب بیانی یا وعدہ خلافی کی نسبت اللہ کی طرف نہیں بلکہ انبیائے کرام ؑ کے متبعین کی طرف ہوگی دراصل اس آیت کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف ہے جب رسول مایوس ہو گئے اور انھوں نے گمان کیا کہ ان سے جھوٹا وعدہ کیا گیا تھا تو اس وقت ان کے پاس اللہ کی مدد آپہنچی۔ حضرت عروہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مذکورہ موقف جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کیا تو آپ نے وضاحت فرمائی۔ یہ کوئی فقہی اختلاف نہیں بلکہ قرآءت کے اختلاف کی وجہ سے اس آیت کے معنی میں اختلاف ہوا ایک نظریاتی موقف کی وضاحت مطلوب ہے۔ اس کی تفصیل ہم کتاب التفسیر میں بیان کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔ 2۔ حضرت یوسف ؑ بلاوجہ سات سال تک جیل میں پڑے رہے ایسے حالات میں انسان مایوس ہو جاتا ہے۔ پھر اللہ کی مدد آئی اور ان کی رہائی کا سبب پیدا ہواچونکہ مذکورہ آیت سورہ یوسف میں ہے اور خود ان کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پیش آیا اس لیے امام بخاری ؒ نے اس روایت کو یہاں ذکر کیا ہے۔ (فتح الباري:509/6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا‘ کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل نے‘ ان سے ابن شہاب نے‘ کہا کہ مجھے عروہ نے خبردی کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ سے آیت کے متعلق پوچھا ﴿حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِّبُوا﴾ (تشدید کے ساتھ) ہے یا کذبوا (بغیر تشدید کے) یعنی یہاں تک کہ جب انبیاء نا امید ہوگئے اور انہیں خیال گزرنے لگا کہ انہیں جھٹلادیا گیا تو اللہ کی مدد پہنچی تو انہوں نے کہا کہ (یہ تشدید کے ساتھ ہے اور مطلب یہ ہے کہ) ان کی قوم نے انہیں جھٹلایا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر معنی کیسے بنیں گے‘ پیغمبروں کو یقین تھا ہی کہ ان کی قوم انہیں جھٹلا رہی ہے۔ پھر قرآن میں لفظ ''ظن'' گمان اورخیال کے معنی میں استعمال کیوں کیاگیا؟ عائشہ ؓ نے کہا اے چھوٹے سے عروہ! بے شک ان کو تو یقین تھا میں نے کہا توشاید اس آیت میں بغیر تشدید کے کذبوا ہوگا یعنی پیغمبر یہ سمجھے کہ اللہ نے جو ان کی مدد کا وعدہ کیا تھا وہ غلط تھا۔ عائشہ ؓ نے فرمایا معاذ اللہ! انبیاءاپنے رب کے ساتھ بھلا ایسا گمان کرسکتے ہیں۔ عائشہ ؓ نے کہا مراد یہ ہے کہ پیغمبروں کے تابعدار لوگ جو اپنے مالک پر ایمان لائے تھے اور پیغمبروں کی تصدیق کی تھی ان پر جب مدت تک خدا کی آزمائش رہی اور مدد آنے میں دیر ہوئی اور پیغمبر لوگ اپنی قوم کے جھٹلانے والوں سے نا امید ہوگئے (سمجھے کہ اب وہ ایمان نہیں لائیں گے) اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ جو لوگ انکے تابعدار بنے ہیں وہ بھی ان کو جھوٹا سمجھنے لگیں گے‘ اس وقت اللہ کی مدد آن پہنچی۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؒ) نے کہا کہ {اسْتَيْأَسُوا}استفعلوا کے وزن پر ہے جو یئست منه سے نکلا ہے‘ أي من یوسف (سورۃ یوسف کی آیت کا ایک جملہ ہے، یعنی زلیخا یوسف ؑ سے نا امید ہوگئی ﴿لَا تَایَئَسُوا مِن رَّوحِ اللّٰہِ﴾(یوسف:75)یعنی اللہ سے امید رکھو نا امید نہ ہو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urwa (RA): I asked 'Aisha (RA) the wife of the Prophet (ﷺ) about the meaning of the following Verse: -- "(Respite will be granted) 'Until when the apostles give up hope (of their people) and thought that they were denied (by their people)..............."(12.110) 'Aisha (RA) replied, "Really, their nations did not believe them." I said, "By Allah! They were definite that their nations treated them as liars and it was not a matter of suspecting." 'Aisha (RA) said, "O 'Uraiya (i.e. 'Urwa)! No doubt, they were quite sure about it." I said, "May the Verse be read in such a way as to mean that the apostles thought that Allah did not help them?" Aisha (RA) said, "Allah forbid! (Impossible) The Apostles did not suspect their Lord of such a thing. But this Verse is concerned with the Apostles' followers who had faith in their Lord and believed in their apostles and their period of trials was long and Allah's Help was delayed till the apostles gave up hope for the conversion of the disbelievers amongst their nation and suspected that even their followers were shaken in their belief, Allah's Help then came to them." Narrated Ibn 'Umar (RA): The Prophet (ﷺ) said, "The honorable, the son of the honorable, the son of the honorable, (was) Joseph, the son of Jacob! the son of Isaac, the son of Abraham."