Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: What has been said about Bani Israel)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3484.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہود ونصاریٰ بالوں کو خضاب نہیں لگاتے، تم لوگ ان کے خلاف طریقہ اختیارکرو۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث میں یہود ونصاریٰ کی مخالفت کا ذکر ہے، عنوان سے یہی مناسبت ہے نیز خضاب سے مراد مہندی لگانا ہے۔ اس وقت کریم کی شکل میں رنگ، بازار میں دستیاب نہیں تھے، آج ہر قسم کے رنگ، بازار سے مل جاتے ہیں۔ بالوں کو سیاہ رنگ کرنے کی ممانعت ہے جیساکہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بالوں کو رنگ کرو لیکن انھیں سیاہ کرنے سے پرہیز کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث:5509(2102) 2۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ یہودونصاریٰ کی تہذیب اختیار کرنے کی بجائے اسلامی تہذیب اور اسلامی طرز معاشرت اختیار کرنی چاہیے، مگر افسوس کہ ہمارے معاشرے میں اکثر نام نہاد مسلمان اسی تہذیب مغرب کے دلدادہ ہیں۔ 3۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ نے اس موضوع پر مستقل ایک کتاب "اقتضاء الصراط المستقیم في مخالفة أصحاب الجحیم" لکھی ہے۔ اس کامطالعہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔اس کا اردو بھی بازار میں دستیاب ہے۔ 4۔بعض روایات میں سفیدی زائل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس سے مرادسفید بالوں کو اکھاڑنا ہے۔ مہندی یا خضاب سے بالوں کی سفیدی کو ختم نہیں کیا جاتا بلکہ اسے ڈھانپا جاتا ہے اس کی شریعت میں اجازت ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3329
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3462
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3462
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3462
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہود ونصاریٰ بالوں کو خضاب نہیں لگاتے، تم لوگ ان کے خلاف طریقہ اختیارکرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں یہود ونصاریٰ کی مخالفت کا ذکر ہے، عنوان سے یہی مناسبت ہے نیز خضاب سے مراد مہندی لگانا ہے۔ اس وقت کریم کی شکل میں رنگ، بازار میں دستیاب نہیں تھے، آج ہر قسم کے رنگ، بازار سے مل جاتے ہیں۔ بالوں کو سیاہ رنگ کرنے کی ممانعت ہے جیساکہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بالوں کو رنگ کرو لیکن انھیں سیاہ کرنے سے پرہیز کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث:5509(2102) 2۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ یہودونصاریٰ کی تہذیب اختیار کرنے کی بجائے اسلامی تہذیب اور اسلامی طرز معاشرت اختیار کرنی چاہیے، مگر افسوس کہ ہمارے معاشرے میں اکثر نام نہاد مسلمان اسی تہذیب مغرب کے دلدادہ ہیں۔ 3۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ نے اس موضوع پر مستقل ایک کتاب "اقتضاء الصراط المستقیم في مخالفة أصحاب الجحیم" لکھی ہے۔ اس کامطالعہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔اس کا اردو بھی بازار میں دستیاب ہے۔ 4۔بعض روایات میں سفیدی زائل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس سے مرادسفید بالوں کو اکھاڑنا ہے۔ مہندی یا خضاب سے بالوں کی سفیدی کو ختم نہیں کیا جاتا بلکہ اسے ڈھانپا جاتا ہے اس کی شریعت میں اجازت ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سےعبدالعزیز بن عبداللہ نےبیان کیا ،کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن سعد نےبیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان یک اور ان سےحضرت ابوہریرہ نے کہ رسول کریمﷺ نےفرمایا، یہود و نصاری (داڑھی وغیرہ) میں خضاب نہیں لگاتے، تم لوگ اس کےخلاف طریقہ اختیار کرو (یعنی خضاب لگایا کرو)۔
حدیث حاشیہ:
حدیث میں یہود و نصاریٰ کاذکر ہےیہی باب سے وجہ مناسبت ہے، مہندی کاخضاب مراد ہےجسے داڑھی اورسر پرلگانا مسنون ہے، ا س حدیث سےیہ بھی نکلا کہ یہود و نصاری کی تہذیب کی بجائے اسلامی طرز معاشرت اختیار کرنا ضروری ہے اور اندھے دھند ان کے مقلدین بن کرانکی بدترین تہذیب کواختیار کرنا بڑی دنائت ہےمگر افسوس کہ آج بیشتر نام نہاد مسلمان اسی تہذیب کےدلدادہ بنے ہوئے ہیں، جن روایتوں میں ازالہ شیب یعنی سفید بالوں کےازالہ کی نہی آئی ہے، وہ نہی سیاہ خضاب سےمتعلق ہےجومنع ہے۔ مسلم شریف میں ہے قَالَ النَبيُ غَیروہ وجَنبوہ السوادَیعنی سفید بالوں کومتغیر کردومگر سیاہ خضاب سےبچو۔ جولوگ جانتے ہیں کہ داڑھی بڑہانا اس لیے سنت ہےکہ یہ یہود کی تہذیب کی مخالفت میں مندی کاخضاب کرنا اتنا ہی ضروری ہےجتنا داڑھی کابڑھانا ضروری ہےمگر اکثر مسلمان ہیں جو آدمی بات یاد رکھتے ہیں، آدھی کوبھول جاتے ہیں ۔بہرحال اسلامی تہذیب ایک مکمل بہترین نہذیب ہے،آج مغربیت کےفذائی اسلامی تہذیب چھوڑنے والے شکل وصورت ولباس وغیرہ وغیرہ سےعذاب خداوندوی میں گرفتار ہیں جوانسان لباس اپنائے ہوئےبھی جس کوپہن کرنہ آرام سےکھاسکتےہیں نہ بیٹھ سکتے ہیں پھر اس لباس پرمگن ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "The Jews and the Christians do not dye (their grey hair), so you shall do the opposite of what they do (i.e. dye your grey hair and beards)."