مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3490.
حضرت حمید بن عبد الرحمٰن سے روایت ہے کہ جس سال امیر معاویہ ؓحج پر تشریف لے گئے تو انھوں نے منبر پر ان کو یہ فرماتے ہوئے سنا جبکہ انھوں نے مصنوعی بالوں کا گچھا لیا۔ جو ان کے چوکیدار کے ہاتھ میں تھا۔ آپ نے فرمایا: اے اہل مدینہ! تمھارےعلماء کہاں ہیں؟ میں نےنبی ﷺ کو اس سے منع کرتے ہوئے سنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل کی عورتوں نے جب اس طرح اپنے بال سنوارنے شروع کر دیے تو وہ ہلاک ہو گئے۔‘‘
تشریح:
1۔ حضرت امیر معاویہ ؓ نے اہل مدینہ کو منکرات و فواحش پھیلنے اور ان کی روک تھام سے غفلت برتنے پر ڈانٹ پلائی کہ مدینہ طیبہ کے علماء ایسی بری چیزوں سے کیوں منع نہیں کرتے اور ایسی منکرات کو روکنے سے غافل کیوں ہیں۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خلاف شرع امور کا ازالہ حکمرانوں کا اہم فریضہ ہے کیونکہ ایسے امور قوموں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کا جاذب نظر لباس پہن کر بازاروں میں نکلنا اور لوگوں کی دعوت نظارہ دینا یہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔ 3۔ مصنوعی بال لگانا کبیرہ گناہ ہے رسول اللہ ﷺ نے ان کے لگانے پر لعنت فرمائی ہے۔ بنی اسرائیل میں ان کا استعمال حرام تھا مگر جب ان کی عورتوں نے اس جرم کا ارتکاب کیا اور انھیں کوئی روکنے والا نہ تھا تو ایسی حرکتیں بنی اسرائیل کی تباہی کا باعث ہوئیں ہمارے معاشرے میں بھی یہ وبا عام ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے بچنے کی توفیق دے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3335
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3468
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3468
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3468
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت بنی اسرائیل کے عجیب و غریب واقعات بیان ہوں گے۔گویا یہ پچھلے عنوان کا تتمہ ہے۔
حضرت حمید بن عبد الرحمٰن سے روایت ہے کہ جس سال امیر معاویہ ؓحج پر تشریف لے گئے تو انھوں نے منبر پر ان کو یہ فرماتے ہوئے سنا جبکہ انھوں نے مصنوعی بالوں کا گچھا لیا۔ جو ان کے چوکیدار کے ہاتھ میں تھا۔ آپ نے فرمایا: اے اہل مدینہ! تمھارےعلماء کہاں ہیں؟ میں نےنبی ﷺ کو اس سے منع کرتے ہوئے سنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل کی عورتوں نے جب اس طرح اپنے بال سنوارنے شروع کر دیے تو وہ ہلاک ہو گئے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت امیر معاویہ ؓ نے اہل مدینہ کو منکرات و فواحش پھیلنے اور ان کی روک تھام سے غفلت برتنے پر ڈانٹ پلائی کہ مدینہ طیبہ کے علماء ایسی بری چیزوں سے کیوں منع نہیں کرتے اور ایسی منکرات کو روکنے سے غافل کیوں ہیں۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خلاف شرع امور کا ازالہ حکمرانوں کا اہم فریضہ ہے کیونکہ ایسے امور قوموں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کا جاذب نظر لباس پہن کر بازاروں میں نکلنا اور لوگوں کی دعوت نظارہ دینا یہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔ 3۔ مصنوعی بال لگانا کبیرہ گناہ ہے رسول اللہ ﷺ نے ان کے لگانے پر لعنت فرمائی ہے۔ بنی اسرائیل میں ان کا استعمال حرام تھا مگر جب ان کی عورتوں نے اس جرم کا ارتکاب کیا اور انھیں کوئی روکنے والا نہ تھا تو ایسی حرکتیں بنی اسرائیل کی تباہی کا باعث ہوئیں ہمارے معاشرے میں بھی یہ وبا عام ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے بچنے کی توفیق دے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ مسلمہ نےبیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سےابن وہب نے، ان سے حمید بن عبدالرحمن نے اور انہوں نےمعاویہ بن ابی سفیان نے سنا ایک سال جب وہ حج کےلیے گئے ہوئے تھے تومنبر نبوی پرکھڑے ہوکر انہوں نے پیشانی کےبالوں ایک کچھا لیا جو ان کے چوکیدار کےےہاتھ میں تھا اورفرمایا اے مدینہ والو! تمہارے علماء کدھر گئے میں نے نبی کریمﷺ سےسنا ہے۔ آپ نےاس طرح (بال جوڑنےکی) ممانعت فرمائی تھی اورفرمایا تھاکہ بنی اسرائیل پربربادی اس وقت آئی جب (شریعت کےخلاف) ان کی عورتوں نےاس طرح بال سنوارنے شروع کردئیے تھے۔
حدیث حاشیہ:
تمہارے علماء کدھر گئے یعنی کیاتم کومنع کرنے والے علماءختم ہوگئے ہیں۔ معلوم ہواکہ منکرات پر لوگوں کومنع کرنا علماء کا فرض ہے۔ دوسروں کےبال اپنے سرمیں جوڑنا مرادہے۔ دوسری حدیث میں ایسی عورت پرلعنت آئی ہے۔ معاویہ کا یہ خطبہ 61ھ سےمتعلق ہے۔ جب آپ اپنی خلافت میں آخری حج کرنے آئے تھے، اکثر علماء صحابہ انتقال فرماچکے تھے۔ حضرت امیر نے جہال کےایسے افعال کودیکھ کر یہ تاسف ظاہر فرمایا۔ نبی اسرائیل کی شریعت میں بھی یہ حرام تھامگر ان کی عورتوں نے اس گناہ کا ارتکاب کیا اور ایسی حرکتوں کی وجہ سے بنی اسرائیل تباہ ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ محرمات کےعمومی ارتکاب سےقومیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ حضرت معاویہ بن ابی سفیان ؓ قریشی اور اموی ہیں۔ ان کی والدہ کانام ہندبنت عتبہ ہے۔ حضرت معاویہ خود اور ان کے والد فتح مکہ کےدن مسلمان ہوئے۔ یہ مولفۃ القلوب میں داخل تھے۔ بعدمیں آنحضرت ﷺ کےمراسلات لکھنے کی خدمت ان کو سونپی گئی۔ اپنے بھائی یزید کےبعد شام کے حاکم مقرر ہوئے۔ حضرت عمر کےزمانہ سے وفات تک حاکم ہی رہے۔ یہ کل مدت بیس سال ہے۔ حضرت عمر کےدور خلافت میں تقریبا 4 سال اورحضرت عثمان کی پوری مدت خلافت اورحضرت علی کی پوری مدت خلافت اور ان کے بیٹے حضرت حسن کی مدت خلافت یہ کل بیس سال ہوئے۔ ا س کے بعد حضرت حسن بن علی ؓ نے 41ھ میں خلافت ان کی سپرد کردیا توحکومت مکمل طور پر ان کو حاصل ہوگئی اورمکمل بیس سال تک زمام سلطنت ان کے ہاتھ میں رہی۔ بمقام دمشق رجب سہ 60 ھ میں 84 سال کی عمر میں ان کاانتقال ہوگیا۔ آخر عمر میں لقوہ کی بیماری ہوگئی تھی۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں فرمایا کرتے تھے کاش میں وادی ذی طویٰ میں قریش کا ایک آدمی ہوتا اور یہ حکومت وغیرہ کچھ نہ جانتا۔ ان کی زندگی میں بہت سےسیاسی انقلابات آتے جاتے رہے۔ انتقال سے پہلے ہی اپنے بیٹے یزید کو زمام حکومت سونپ کرسکدوش ہوگئے تھے۔ مگر یزید بعد میں ان کا کیسا جانشین ثابت ہوا یہ دنیائے اسلام جانتی ہے۔ تفصیل کی ضرورت نہیں۔ حضرت معاویہ کی والدہ ماجدہ حضرت ہندہ بنت عتبہ بڑی عاقلہ خاتون تھیں۔ فتح مکہ کے دن دوسری عورتوں کےساتھ انہوں نے بھی آنحضرت ﷺ کی دست مبارک پر اسلام کی بیعت کی تو آپ نے فرمایا کہ خدا کےساتھ کسی کوشریک نہ کرو اور نہ چوری کروگی توہندہ نےعرض کیاکہ میرے خاوند ابوسفیان ہاتھ روک کر خرچ کرتے ہیں جس سے تنگی لاحق ہوتی ہے توآپ نےفرمایا کہ تم اس قدر لے لو جوتمہارے اور تمہاری اولاد کےلیے حسب دستور کافی ہو۔ آپ نے فرمایا کہ اور زنا نہ کرو گی، ہندہ نےعرض کیا کہ آیا کوئی شریف عورت زنا کارہوسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اپنے بچوں کوقتل نہ کروگی تو ہندہ نے عرض کیا کہ آپ نے ہمارے سب بچوں کوقتل کرادیا۔ ہم نے تو چھوٹے چھوٹے بچوں کو پرورش کیا اوربڑے ہونے پر آپ نے ان کابدر میں قتل کرادیا۔ حضرت عمر کی خلافت کے زمانے میں وفات پائی۔ اسی روز حضرت ابوقحافہ ابوبکر کووالد ماجد کاانتقال ہوا۔ رحمهم اللہ أجمعین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Humaid bin 'Abdur-Rahman (RA): That he heard Muawiyah bin Abi Sufyan (talking) on the pulpit in the year when he performed the Hajj. He took a tuft of hair that was in the hand of an orderly and said, "O people of Medina! Where are your learned men? I heard the Prophet (ﷺ) forbidding such a thing as this (i.e. false hair) and he used to say, 'The Israelis were destroyed when their ladies practiced this habit (of using false hair to lengthen their locks)."