مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3493.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ نماز صبح ادا کی، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’ایک شخص بیل کو ہانکے لیے جارہا تھا کہ وہ اس پر سوار ہو گیا اور اسے مارا۔ اس بیل نے کہا: ہم جانور سواری کے لیے پیدا نہیں کیے گئے۔ بلکہ ہماری پیدائش تو کھیتی باڑی کے لیے ہے۔‘‘ لوگوں نے کہا: سبحان اللہ! بیل نے باتیں کیں! آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس پر یقین رکھتے ہیں۔ حالانکہ اس وقت وہ دونوں وہاں موجود نہ تھے۔‘‘ اسی طرح ایک دفعہ ایک شخص اپنی بکریاں میں موجود تھا کہ اچانک بھیڑیے نےحملہ کیا اور ان میں سے ایک بکری اٹھا کر لے بھاگا۔ چرواہے نےاس کا پیچھا کیا اور اس سے وہ بکری چھڑالی۔ اس پر بھیڑیے نے اسے کہا: آج تو یہ بکری تو نے مجھ سے چھڑالی ہےلیکن درندوں والے دن اسے کون بچائے گا، جس دن میرے علاوہ ان کا اور کوئی چرواہا نہیں ہو گا؟‘‘ لوگوں نے کہا: سبحان اللہ!بھیڑیا باتیں کرتا ہے! آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں، ابو بکر اور عمر اس پر یقین رکھتے ہیں۔ حالانکہ وہ دونوں وہاں موجود نہیں تھے۔‘‘
تشریح:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قوت ایمانی پر یقین تھا اس لیے آپ نے ان کی عدم موجود گی میں ان کے ایمان و یقین کی شہادت دی۔ 2۔اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس نے بیل اور بھیڑیے میں بولنے کی قوت پیدا کردی۔ 3۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حیوانات کا استعمال ان ہی کاموں کے لیے ہونا چاہیے جن میں بطور عادت ان کو استعمال کیا جاتا ہے بیلوں پر سواری نہیں کرنی چاہیے اور بھیڑبکریوں کو کھیتی باڑی میں نہیں لگانا چاہیے۔(فتح الباري:634/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3338
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3471
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3471
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3471
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت بنی اسرائیل کے عجیب و غریب واقعات بیان ہوں گے۔گویا یہ پچھلے عنوان کا تتمہ ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ نماز صبح ادا کی، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’ایک شخص بیل کو ہانکے لیے جارہا تھا کہ وہ اس پر سوار ہو گیا اور اسے مارا۔ اس بیل نے کہا: ہم جانور سواری کے لیے پیدا نہیں کیے گئے۔ بلکہ ہماری پیدائش تو کھیتی باڑی کے لیے ہے۔‘‘ لوگوں نے کہا: سبحان اللہ! بیل نے باتیں کیں! آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس پر یقین رکھتے ہیں۔ حالانکہ اس وقت وہ دونوں وہاں موجود نہ تھے۔‘‘ اسی طرح ایک دفعہ ایک شخص اپنی بکریاں میں موجود تھا کہ اچانک بھیڑیے نےحملہ کیا اور ان میں سے ایک بکری اٹھا کر لے بھاگا۔ چرواہے نےاس کا پیچھا کیا اور اس سے وہ بکری چھڑالی۔ اس پر بھیڑیے نے اسے کہا: آج تو یہ بکری تو نے مجھ سے چھڑالی ہےلیکن درندوں والے دن اسے کون بچائے گا، جس دن میرے علاوہ ان کا اور کوئی چرواہا نہیں ہو گا؟‘‘ لوگوں نے کہا: سبحان اللہ!بھیڑیا باتیں کرتا ہے! آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں، ابو بکر اور عمر اس پر یقین رکھتے ہیں۔ حالانکہ وہ دونوں وہاں موجود نہیں تھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قوت ایمانی پر یقین تھا اس لیے آپ نے ان کی عدم موجود گی میں ان کے ایمان و یقین کی شہادت دی۔ 2۔اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس نے بیل اور بھیڑیے میں بولنے کی قوت پیدا کردی۔ 3۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حیوانات کا استعمال ان ہی کاموں کے لیے ہونا چاہیے جن میں بطور عادت ان کو استعمال کیا جاتا ہے بیلوں پر سواری نہیں کرنی چاہیے اور بھیڑبکریوں کو کھیتی باڑی میں نہیں لگانا چاہیے۔(فتح الباري:634/6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نےبیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالزناد نےبیان کیا، ان سے اعرج نے، ان سےابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نےصبح کی نماز پڑھی پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایا ایک شخص (بنی اسرائیل کا) اپنی گائے ہانکے لیے جارہا تھا کہ وہ ا س پر سوار ہوگیا اورپھر اسےمارا۔ اس گائے نے (بقدرت الہی ) کہا کہ ہم جانور سواری کےلیے نہیں پیدا کیے کئے۔ ہماری پیدائش توکھیتی کےلیے ہوئی ہے۔ لوگوں نےکہا سبحان اللہ! گائے بات کرتی ہے۔ پھر آنحضرت ﷺ نےفرمایا کہ میں اس بات پرایمان لاتاہوں اورابوبکر اورعمر بھی۔ حالانکہ یہ دونوں وہاں موجود بھی نہیں تھے۔اسی طرح ایک شخص اپنی بکریاں چرا رہاتھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور ریوڑ میں سے ایک بکر ی اٹھا کر لے جانےلگا۔ ریوڑ والا دوڑا اور اس نےبکری کوبھڑیئے سے چھڑالیا۔ اس پر بھیڑیا (بقدرت الہی) بولا، آج توتم نےمجھ سے اسے چھڑا لیا لیکن درندوں والے دن میں (قرب قیامت )اسے کون بچائے گا جس دن میرے سوا اورکوئی اس کا چروہا نہ ہوگا؟ لوگوں نےکہا سبحان اللہ! بھڑیا باتیں کرتاہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میں تو اس بات پر ایمان لایا اور ابو بکرو عمرؓ بھی۔ حالانکہ وہ دونوں موجود نہ تھے۔
حدیث حاشیہ:
رسول اللہﷺ کو حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ کی قوت ایمانی پر یقین تھا۔ اس لیے آپ نے ان کی عدم موجودگی میں ان کے ایمان ویقین کی شہادت دی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Once Allah's Apostle; offered the morning prayer and then faced the people and said, "While a man was driving a cow, he suddenly rode over it and beat it. The cow said, "We have not been created for this, but we have been created for sloughing." On that the people said astonishingly, "Glorified be Allah! A cow speaks!" The Prophet (ﷺ) said, "I believe this, and Abu Bakr (RA) and 'Umar too, believe it, although neither of them was present there. While a person was amongst his sheep, a wolf attacked and took one of the sheep. The man chased the wolf till he saved it from the wolf, where upon the wolf said, 'You have saved it from me; but who will guard it on the day of the wild beasts when there will be no shepherd to guard them except me (because of riots and afflictions)? ' " The people said surprisingly, "Glorified be Allah! A wolf speaks!" The Prophet (ﷺ) said, "But I believe this, and Abu Bakr (RA) and 'Umar too, believe this, although neither of them was present there." (See the Foot-note of page No. 1O Vol.5)