مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3511.
حضرت سعید بن مسیب ؒسے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان ؓ جب آخری بار مدینہ طیبہ تشریف لائے تو انھوں نے ہمارے سامنے خطبہ پڑھا اورمصنوعی بالوں کی ایک لٹ نکالی، پھر فرمایا: میں نہیں سمجھتا تھا کہ یہودیوں کے علاوہ کوئی اور یہ کام کرتا ہوگا۔ بے شک نبی کریم ﷺ نے اس کانام جھوٹ اور فریب رکھا ہے، یعنی زینت کے لیے اپنے اصلی بالوں میں مصنوعی بال ملانا۔ غندر نے شعبہ سے روایت کرنے میں آدم کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
1۔ زور سے مراد جھوٹ اور فریب ہے یعنی غلط طریقے سے بالوں کی نمائش اور آرائش کرنا۔ مطلب یہ ہے کہ دوسروں کے بال اپنے بالوں میں ملا کر جھوٹ موٹ کی زینت حاصل کرنا در اصل یہودیوں کی عورتوں میں بہت سی معاشرتی بیماریاں در آئی تھیں۔ ان میں ایک یہ تھی کہ وہ مصنوعی بالوں کا عام استعمال کرتی تھیں رسول اللہ ﷺ نے اس سے سختی سے منع فرما دیا۔ آپ نے اس عورت پر لعنت کی ہےجو بالوں میں مصنوعی بال ملاتی ہے اور جس عورت کے لیے یہ کام کیا جائے گا اسے بھی لعنتی قراردیا ہے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:(5934) دور جدید میں اسے وگ کہا جاتا ہے اور بازاروں میں عام دستیاب ہے۔ اس کے مختلف سٹائل ہوتے ہیں۔ پہلے تو اسے صرف گنجاپن چھپانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہےلیکن اب اس معاشرے نے "ترقی" کرتے ہوئے بطور زینت اسے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ اس قسم کے فریب اور جھوٹ کی دین اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بنی اسرائیل کی ہلاکت اور تباہی ایسے ہی کاموں سے ہوئی۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:(5932)بنی اسرائیل کی پست قد عورتیں لکڑی کی مصنوعی ٹانگیں بھی استعمال کرتی تھیں تاکہ خود کو دراز قد دکھایا جائے۔ ہمارے معاشرے میں اونچی ایڑی والی جوتی استعمال کی جاتی ہے اسلام دین فطرت ہے اور جھوٹی زینت کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمیں ایسے تمام کاموں سے بچنا چاہیے جس میں فریب کاری یا دھوکا دہی ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں ایسے تمام کام باعث لعنت ہیں۔ 2۔ا مام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا بنی اسرائیل کے ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے تعلق ہے۔ ان احادیث میں یہود و نصاریٰ کا کردار پیش ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی مخالفت کا حکم دیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہم مسلمان ایسے کاموں سے بچیں جو یہود و نصاری کی پہچان ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام پر کاربند رکھے اور اس پر ہمارا خاتمہ کرے۔ آمین۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3356
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3488
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3488
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3488
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت بنی اسرائیل کے عجیب و غریب واقعات بیان ہوں گے۔گویا یہ پچھلے عنوان کا تتمہ ہے۔
حضرت سعید بن مسیب ؒسے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان ؓ جب آخری بار مدینہ طیبہ تشریف لائے تو انھوں نے ہمارے سامنے خطبہ پڑھا اورمصنوعی بالوں کی ایک لٹ نکالی، پھر فرمایا: میں نہیں سمجھتا تھا کہ یہودیوں کے علاوہ کوئی اور یہ کام کرتا ہوگا۔ بے شک نبی کریم ﷺ نے اس کانام جھوٹ اور فریب رکھا ہے، یعنی زینت کے لیے اپنے اصلی بالوں میں مصنوعی بال ملانا۔ غندر نے شعبہ سے روایت کرنے میں آدم کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ زور سے مراد جھوٹ اور فریب ہے یعنی غلط طریقے سے بالوں کی نمائش اور آرائش کرنا۔ مطلب یہ ہے کہ دوسروں کے بال اپنے بالوں میں ملا کر جھوٹ موٹ کی زینت حاصل کرنا در اصل یہودیوں کی عورتوں میں بہت سی معاشرتی بیماریاں در آئی تھیں۔ ان میں ایک یہ تھی کہ وہ مصنوعی بالوں کا عام استعمال کرتی تھیں رسول اللہ ﷺ نے اس سے سختی سے منع فرما دیا۔ آپ نے اس عورت پر لعنت کی ہےجو بالوں میں مصنوعی بال ملاتی ہے اور جس عورت کے لیے یہ کام کیا جائے گا اسے بھی لعنتی قراردیا ہے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:(5934) دور جدید میں اسے وگ کہا جاتا ہے اور بازاروں میں عام دستیاب ہے۔ اس کے مختلف سٹائل ہوتے ہیں۔ پہلے تو اسے صرف گنجاپن چھپانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہےلیکن اب اس معاشرے نے "ترقی" کرتے ہوئے بطور زینت اسے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ اس قسم کے فریب اور جھوٹ کی دین اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بنی اسرائیل کی ہلاکت اور تباہی ایسے ہی کاموں سے ہوئی۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:(5932)بنی اسرائیل کی پست قد عورتیں لکڑی کی مصنوعی ٹانگیں بھی استعمال کرتی تھیں تاکہ خود کو دراز قد دکھایا جائے۔ ہمارے معاشرے میں اونچی ایڑی والی جوتی استعمال کی جاتی ہے اسلام دین فطرت ہے اور جھوٹی زینت کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمیں ایسے تمام کاموں سے بچنا چاہیے جس میں فریب کاری یا دھوکا دہی ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں ایسے تمام کام باعث لعنت ہیں۔ 2۔ا مام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا بنی اسرائیل کے ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے تعلق ہے۔ ان احادیث میں یہود و نصاریٰ کا کردار پیش ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی مخالفت کا حکم دیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہم مسلمان ایسے کاموں سے بچیں جو یہود و نصاری کی پہچان ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام پر کاربند رکھے اور اس پر ہمارا خاتمہ کرے۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ایاس نے بیان کیا، ہم سے شعبہ نے بیا ن کیا، ان سے عمروبن مرہ نے، کہا کہ میں نے سعید بن مسیب نے سنا، آپ نےبیان کیا کہ معاویہ بن ابی سفیان ؓ نے مدینہ کے اپنے آخری سفر میں ہمیں خطاب فرمایا اور (خطبہ کےدوران) آپ نے بالوں کا ایک گچھا نکالا اورفرمایا، میں سمجھتا ہوں کہ یہودیوں کےسوا اور کوئی اس طرح نہ کرتا ہوگا اور نبی کریمﷺ نے اس طرح ہال سنوارنے کانام ''الزور'' (فریب وجھوٹ) رکھا ہے۔ آپ کی مراد، وصال في الشعر، سے تھی۔ یعنی بالوں میں جوڑلگانےسے تھی (جیسے اکثر عورتیں مصنوعی بالوں میں جوڑا کیا کرتی ہیں) آدم کےساتھ اس حدیث کوغندر نے بھی شعبہ سے روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
عورت کا ایسے مصنوعی بالوں سےزینت کرن منع ہے۔ امام بخاری نےیہاں پر کتاب الانبیاء کوختم فرمادیا جس میں احادیث مروفوعہ اورمکررات اورتعلیقات وغیرہ مل کر سب کی تعداد دو سونو احادیث ہیں۔ اہل علم تفصیل کےلیے فتح الباری کامطالعہ فرمائیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Said bin Al-Musaiyab (RA): When Muawiyah bin Abu Sufyan (RA) came to Madinah for the last time, he delivered a sermon before us. He took out a tuft of hair and said, "I never thought that someone other than the Jews would do such a thing (i.e. use false hair). The Prophet (ﷺ) named such a practice, 'Az-Zur' (i.e. falsehood)," meaning the use of false hair.