تشریح:
1۔ اس حدیث سے حضرت ابو بکرصدیق ؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ آپ کی بصیرت عظیم خطبہ اور بروقت اقدام نے امت کے شیرازے کو منتشر ہونے سے بچا لیا ۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کا علم حضرت عمر ؓ بلکہ تمام صحابہ کے علم سے بڑھ کر تھا۔2۔انصار نے جو تجویز پیش کی تھی کہ دو امیر مقرر کر لیے جائیں وہ صحیح نہ تھی ۔ اگر اس پر عمل ہو جاتا تو امت کی وحدت کے خلاف بڑے بھیانک نتائج بر آمد ہوتے۔حضرت عمر نے بروقت اور برجستہ اس تحریک کا جواب دیا اور فرمایا:ایک میان میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں۔ اور ابوبکر ؓ کا ہاتھ پکڑ کرفرمایا:بتاؤ﴿إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ﴾ غار میں دونوں کون تھے؟﴿ذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ﴾ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کون تھے اور﴿إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا﴾ میں اللہ تعالیٰ کی معیت کن کو حاصل تھی؟ پھر آپ نے اپنا ہاتھ پھیلایا اور حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت کرلی اور لوگوں سے کہا:تم بھی ان کی بیت کرو،چنانچہ سب لوگوں نے حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت کرلی۔ (فتح الباري:41/7) 3۔اس حدیث سے منصب خلافت کی اہمیت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی تجہیز وتکفین پر اسے مقدم رکھا۔افسوس کہ آج مسلمانوں نے اس اہم فرض کوفراموش کردیاہے۔اگرچہ آج دنیا میں مسلمانوں کی متعدد حکومتیں قائم ہیں مگر خلافت راشدہ کی جھلک سے اکثر محروم ہیں۔واللہ المستعان۔