قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: کِتَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ (بَابُ مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَبِي عَمْرٍو القُرَشِيِّ ؓ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «مَنْ يَحْفِرْ بِئْرَ رُومَةَ فَلَهُ الجَنَّةُ». فَحَفَرَهَا عُثْمَانُ، وَقَالَ: «مَنْ جَهَّزَ جَيْشَ العُسْرَةِ فَلَهُ الجَنَّةُ» فَجَهَّزَهُ عُثْمَانُ

3696. حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ يُونُسَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ أَخْبَرَهُ أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ قَالَا مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُكَلِّمَ عُثْمَانَ لِأَخِيهِ الْوَلِيدِ فَقَدْ أَكْثَرَ النَّاسُ فِيهِ فَقَصَدْتُ لِعُثْمَانَ حَتَّى خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ قُلْتُ إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً وَهِيَ نَصِيحَةٌ لَكَ قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَرْءُ قَالَ مَعْمَرٌ أُرَاهُ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ فَانْصَرَفْتُ فَرَجَعْتُ إِلَيْهِمْ إِذْ جَاءَ رَسُولُ عُثْمَانَ فَأَتَيْتُهُ فَقَالَ مَا نَصِيحَتُكَ فَقُلْتُ إِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ وَكُنْتَ مِمَّنْ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَاجَرْتَ الْهِجْرَتَيْنِ وَصَحِبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَيْتَ هَدْيَهُ وَقَدْ أَكْثَرَ النَّاسُ فِي شَأْنِ الْوَلِيدِ قَالَ أَدْرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ لَا وَلَكِنْ خَلَصَ إِلَيَّ مِنْ عِلْمِهِ مَا يَخْلُصُ إِلَى الْعَذْرَاءِ فِي سِتْرِهَا قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ فَكُنْتُ مِمَّنْ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ وَآمَنْتُ بِمَا بُعِثَ بِهِ وَهَاجَرْتُ الْهِجْرَتَيْنِ كَمَا قُلْتَ وَصَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَايَعْتُهُ فَوَاللَّهِ مَا عَصَيْتُهُ وَلَا غَشَشْتُهُ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ أَبُو بَكْرٍ مِثْلُهُ ثُمَّ عُمَرُ مِثْلُهُ ثُمَّ اسْتُخْلِفْتُ أَفَلَيْسَ لِي مِنْ الْحَقِّ مِثْلُ الَّذِي لَهُمْ قُلْتُ بَلَى قَالَ فَمَا هَذِهِ الْأَحَادِيثُ الَّتِي تَبْلُغُنِي عَنْكُمْ أَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ شَأْنِ الْوَلِيدِ فَسَنَأْخُذُ فِيهِ بِالْحَقِّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ دَعَا عَلِيًّا فَأَمَرَهُ أَنْ يَجْلِدَهُ فَجَلَدَهُ ثَمَانِينَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا کہ جو شخص بئر رومہ ( ایک کنواں ) کو خرید کر سب کے لیے عام کردے ۔ اس کے لیے جنت ہے ۔ تو حضرت عثمان ؓ نے اسے خرید کر عام کردیا تھا اور آنحضرتﷺنے فرمایا تھا کہ جو شخص جیش عسرہ ( غزوہ تبوک کے لشکر ) کو سامان سے لیس کرے اس کے لیے جنت ہے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا تھا ۔ حضرت عثمانؓ کا نسب نامہ یہ ہے: عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف، عبدمناف میں وہ آنحضرت ﷺکے نسب سے مل جاتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ عبداللہ ان کے صاحبزادے حضرت رقیہ سے تھے جو چھ برس کی عمر میں فوت ہوگئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا عثمان کو آسمان والے ذوالنورین کہتے ہیں، سوا ان کے کسی کے پاس پیغمبر کی دوبیٹیاں جمع نہیں ہوئیں۔ آنحضرت ﷺ ان کو بہت چاہتے تھے، فرمایا اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اس کو بھی تجھ سے بیاہ دیتا۔ ؓ وارضاہ۔جیش عسرہ والی حدیث کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المغازی میں وصل کیا ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے جنگ تبوک کے لیے ایک ہزار اشرفیاں لاکر آنحضرت ﷺ کی گود میں ڈال دی تھیں۔ آپ ان کو گنتے جاتے اور فرماتے جاتے اب عثمان ؓ کو کچھ نقصان ہونے والا نہیں وہ کیسے ہی عمل کرے ۔ اس جنگ میں انہوں نے 950 اونٹ اور پچاس گھوڑے بھی دیئے تھے۔ صدافسوس کہ ایسے بزرگ ترین صحابی کی شان میں آج کچھ لوگ تنقیص کی مہم چلارہے ہیں جو خود ان کی اپنی تنقیص ہےگرنہ بیند بروز شپرہ چشمچشمہ آفتاب راچہ گناہ

3696.

حضرت عبید اللہ بن عدی بن خیار سے روایت ہے کہ حضرت مسوربن مخرمہ ؓ  اور عبد الرحمٰن بن اسود بن عبدیغوث نے ان سے کہا کہ تمھیں حضرت عثمان  ؓ سےان کے بھائی ولید کے متعلق گفتگو کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ لوگ اس کے متعلق بہت چہ میگویاں کرتے ہیں، چنانچہ میں حضرت عثمان  ؓ کے پاس گیا۔ جب وہ نماز کے لیے تشریف لائے تو میں نے عرض کی: مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے جس میں آپ کے لیے خیر خواہی ہے۔ حضرت عثمان  ؓ نے فرمایا: بھلے آدمی!میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ میں واپس آکر ان لوگوں کے پاس آگیا۔ اتنے میں حضرت عثمان  ؓ  کا قاصد مجھے بلانے کے لیے آگیا۔ میں جب اس کے ہمراہ حضرت عثمان  ؓ کی خدمت میں حاضر ہواتو انھوں نے دریافت فرمایا: بتاؤ، تمھاری خیر خواہی کیا تھی؟ میں نے عرض کی: اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو حق دے کر معبوث فرمایا اور آپ پر قرآن نازل کیا، نیز آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو قبول کیا۔ آپ نے دو ہجرتیں کیں اور رسول اللہ ﷺ کی صحبت اٹھائی اور آپ کے طریقے اور سنت کو ملاحظہ کیا۔ بات یہ ہے کہ لوگ ولید کے متعلق بہت باتیں کر رہے ہیں۔ حضرت عثمان  ؓ نے فرمایا: کیاتونے رسول اللہ ﷺ کو پایا ہے؟میں نے کہا: نہیں، لیکن آپ ﷺ کی احادیث مجھے پہنچی ہیں جیسا کہ کنواری لڑکی تک کو اس کے پردے کے باوجود پہنچ چکی ہیں۔ اس پر حضرت عثمان  ؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو حق دے کر معبوث فرمایا اور میں اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو قبول کرنے والوں میں ہی تھا۔ میں اس حق پر ایمان لایا جسے دے کر آپ کو بھیجا گیا تھا اور میں نے دو ہجرتیں کی ہیں جیسا کہ تونے ذکر کیا ہے۔ بلا شبہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی اور آپ کی صحبت میں رہا، اللہ کی قسم!میں نے کبھی آپ کی نا فرمانی نہیں کی اور نہ کبھی آپ سے خیانت ہی کا ارتکاب کیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دی۔ اسی طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بھی میرا یہی معاملہ رہا۔ حضرت عمر فاروق  ؓ کے ساتھ بھی میرا یہی رویہ تھا۔ پھر مجھے ان کا جانشین بنا دیا گیا۔ تو کیامجھے وہ حقوق حاصل نہیں ہوں گے جو انھیں حاصل تھے؟میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، ضرورحاصل ہوں گے۔ آپ نے فرمایا: پھر ان باتوں کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے جو وقتاًفوقتاً تم لوگوں کی طرف سے مجھے پہنچتی رہتی ہیں؟باقی جو تم نے ولید کے متعلق شکایت کی ہے ان شاء اللہ ہم اس کی سزاجو واجب ہے ضروردیں گے۔ اس کے بعد حضرت عثمان  ؓ نے حضرت علی  ؓ کو بلایا اور انھیں فرمایا کہ وہ ولید کو کوڑے ماریں، چنانچہ انھوں نے ولید کو اسی(80)کوڑے بطور حد لگائے۔