قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: تقریری

‌صحيح البخاري: کِتَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ (بَابُ مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَبِي عَمْرٍو القُرَشِيِّ ؓ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «مَنْ يَحْفِرْ بِئْرَ رُومَةَ فَلَهُ الجَنَّةُ». فَحَفَرَهَا عُثْمَانُ، وَقَالَ: «مَنْ جَهَّزَ جَيْشَ العُسْرَةِ فَلَهُ الجَنَّةُ» فَجَهَّزَهُ عُثْمَانُ

3697. حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ بَزِيعٍ حَدَّثَنَا شَاذَانُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كُنَّا فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَعْدِلُ بِأَبِي بَكْرٍ أَحَدًا ثُمَّ عُمَرَ ثُمَّ عُثْمَانَ ثُمَّ نَتْرُكُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نُفَاضِلُ بَيْنَهُمْ تَابَعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا کہ جو شخص بئر رومہ ( ایک کنواں ) کو خرید کر سب کے لیے عام کردے ۔ اس کے لیے جنت ہے ۔ تو حضرت عثمان ؓ نے اسے خرید کر عام کردیا تھا اور آنحضرتﷺنے فرمایا تھا کہ جو شخص جیش عسرہ ( غزوہ تبوک کے لشکر ) کو سامان سے لیس کرے اس کے لیے جنت ہے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا تھا ۔ حضرت عثمانؓ کا نسب نامہ یہ ہے: عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف، عبدمناف میں وہ آنحضرت ﷺکے نسب سے مل جاتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ عبداللہ ان کے صاحبزادے حضرت رقیہ سے تھے جو چھ برس کی عمر میں فوت ہوگئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا عثمان کو آسمان والے ذوالنورین کہتے ہیں، سوا ان کے کسی کے پاس پیغمبر کی دوبیٹیاں جمع نہیں ہوئیں۔ آنحضرت ﷺ ان کو بہت چاہتے تھے، فرمایا اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اس کو بھی تجھ سے بیاہ دیتا۔ ؓ وارضاہ۔جیش عسرہ والی حدیث کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المغازی میں وصل کیا ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے جنگ تبوک کے لیے ایک ہزار اشرفیاں لاکر آنحضرت ﷺ کی گود میں ڈال دی تھیں۔ آپ ان کو گنتے جاتے اور فرماتے جاتے اب عثمان ؓ کو کچھ نقصان ہونے والا نہیں وہ کیسے ہی عمل کرے ۔ اس جنگ میں انہوں نے 950 اونٹ اور پچاس گھوڑے بھی دیئے تھے۔ صدافسوس کہ ایسے بزرگ ترین صحابی کی شان میں آج کچھ لوگ تنقیص کی مہم چلارہے ہیں جو خود ان کی اپنی تنقیص ہےگرنہ بیند بروز شپرہ چشمچشمہ آفتاب راچہ گناہ

3697.

 عربی متن اور ترجمے میں مطابقت نہیں ہے۔

حضرت عثمان ؓ بن مواہب سے روایت ہے کہ اہل مصر سے ایک شخص آیا، اس نے بیت اللہ کا حج کیا تو لوگوں کو ایک جگہ بیٹھے ہوئے دیکھا۔ پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟لوگوں نے کہا: یہ قریش کے لوگ ہیں۔ اس نے پوچھا: ان میں یہ بزرگ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ مصری نے کہا: اے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ !میں آپ سے چند باتوں کی وضاحت چاہتا ہوں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُحد کے دن میدان سے بھاگ نکلے تھے؟انھوں نے فرمایا کہ ہاں (مجھے اس بات کا علم ہے۔ )پھر اس نے کہا: کیاآپ جانتے ہیں کہ وہ جنگ بدر سے بھی غائب تھے؟حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ہاں (مجھے اس کا بھی علم ہے) اس نے کہا: کیا آپ اس سے آگاہ ہیں کہ وہ بیعت رضوان سے بھی غائب تھے اور اس میں شریک نہ ہوئے تھے؟انھوں نے فرمایا: ہاں(جانتا ہوں۔ ) تب اس شخص نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ اس پر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:  ادھر آمیں تجھے ان کی وضاحت کرتا ہوں۔ اُحد سے بھاگ جانے کی بابت تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کر دیا اور انھیں بخش دیا۔ رہا بدر کی لرائی میں شریک نہ ہونا!تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ ﷺ کی لخت جگر تھیں، وہ ان دنوں بیمار ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: ’’(تم اس کی تیمارداری کرو)تمھیں جنگ بدر میں شریک ہونے والوں کے برابر حصہ اور ثواب ملے گا۔‘‘ باقی رہا ان کا بیعت رضوان سے غائب رہنا!تو اگر کوئی شخص مکہ میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ با عزت ہو تا تو آپ اسے روانہ کر دیتے، لہٰذا انھیں رسول اللہ ﷺ نے بھیجا تھا تو آپ چلے گئے اور جب بیعت رضوان ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ قراردےکر اسے اپنے بائیں ہاتھ کے اوپر رکھا اور فرمایا: ’’یہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت ہے۔‘‘ پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص سے فرمایا: اب ان باتوں کو بھی اپنے ساتھ لے جا۔