تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ کے ایک داماد حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ ہیں جو آپ کی بیٹی حضرت زینب ؓ کے خاوند تھے اس حدیث میں ان کا ذکر خیر ہے۔ مشرکین مکہ نے حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ پر دباؤ ڈالا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کو طلاق دے دیں۔ تو انھوں نے صاف انکار کردیا۔ رسول اللہ ﷺ اس بنا پر قرابت دامادی کی تعریف کر رہے ہیں نیز رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی کے نکاح کے وقت حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ سے یہ شرط کی تھی کہ ان کی موجودگی میں کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں کریں گے انھوں نے اس شرط کو پورا کیا، شاید حضرت علی ؓ نے بھی یہی شرط کی ہومگر آپ بھول گئے اور عموم جواز پر نظر رکھتے ہوئے ابو جہل کی بیٹی سے منگنی کی۔ لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے اظہار ناراضی کرتے ہوئے خطبہ دیا تو انھوں نے اپنا ارادہ ترک کردیا اسی طرح حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ جب غزوہ بدر میں قیدی بن کر آئے تو رسول اللہ ﷺ نے اسے رہا کرتے ہوئے کہا تھا:’’میری بیٹی زینب کو مدینہ طیبہ بھیج دینا۔‘‘ تو انھوں نے اس وعدے کے مطابق انھیں بھیج دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی تعریف کی ہے۔ 2۔ واضح رہے کہ وہ فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہوگئے تھے پھر انھوں نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینب ؓ کو ان کی زوجیت میں دے دیا۔ حضرت امامہ ؓ ان کی بیٹی تھیں جنھیں رسول اللہ ﷺ دوران نماز میں اپنے کندھوں پر اٹھالیا کرتے تھے۔ حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ یمامہ کی لڑائی میں ذوالحجہ 12ھ کو شہید ہوئے۔