Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: What is said about the thigh)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت امام ابوعبداللہ ( بخاری ) نے کہا کہ ابن عباس، جرہد اور محمد بن حجش نے نبی کریم ﷺ سے یہ نقل کیا کہ ران شرمگاہ ہے۔ انس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ( جنگ خیبر میں ) اپنی ران کھولی۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری ) کہتے ہیں کہ انس ؓ کی حدیث سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے۔ اور جرہد کی حدیث میں بہت احتیاط ملحوظ ہے۔ اس طرح ہم اس بارے میں علماء کے باہمی اختلاف سے بچ جاتے ہیں۔کیوں کہ اگرران بالفرض ستر نہیں تب بھی اس کے چھپانے میں کوئی برائی نہیں۔اور ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہا کہ عثمان ؓ آئے تو نبی کریم ﷺ نے اپنے گھٹنے ڈھانک لیے اور زید بن ثابت نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ پر ایک مرتبہ وحی نازل فرمائی۔ اس وقت آپ ﷺ کی ران مبارک میری ران پر تھی، آپ کی ران اتنی بھاری ہو گئی تھی کہ مجھے اپنی ران کی ہڈی ٹوٹ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔تشریح : حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک ران شرمگاہ میں داخل ہے، اس لیے اس کا چھپانا واجب ہے۔ اور ابن ابی ذائب رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوداؤدظاہری رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ران شرمگاہ میں داخل نہیں ہے۔ محلّی میں امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اگرران شرمگاہ میں داخل ہوتی تواللہ پاک اپنے رسولﷺ کی جو معصوم اور پاک تھے، ران نہ کھولتا، نہ کوئی اس کو دیکھ لیتا۔ امام بخاری کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے، باب کے تحت حضرت عبداللہ بن عباس کی جس حدیث کا ذکر امام بخاری لائے ہیں اس کوترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے اور جرہد کی حدیث کو امام مالک نے مؤطا میں اور محمد بن حجش کی حدیث کو حاکم نے مستدرک میں اور امام بخاری نے تاریخ میں نکالا ہے۔ مگران سب کی سندوں میں کلام ہے۔ حضرت انس بن مالک کی روایت یہاں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ خود لائے ہیں اور آپ کا فیصلہ احتیاطاً ران ڈھانکنے کا ہے وجوباً نہیں۔ آپ نے مختلف روایات میں تطبیق دینے کے لیے یہ درمیانی راستہ اختیار فرمایا ہے۔ جو آپ کی کمال دانائی کی دلیل ہے، ایسے فروعی اختلافات میں درمیانی راستے تلاش کئے جاسکتے ہیں مگرعلماءکے دلوں میں وسعت کی ضرورت ہے، اللہ پیدا کرے۔امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ ران کا شرمگاہ میں داخل ہونا صحیح ہے اور دلائل سے ثابت ہے، مگرناف اور گھٹنا سترمیں داخل نہیں ہیں۔ آپ کی تقریر یہ ہے۔ قال النووی ذہب اکثر العلماءالی ان الفخذ عورۃ وعن احمد ومالک فی روایۃ العورۃ القبل والدبر فقط وبہ قال اہل الظاہر وابن جریر والاصطخریوالحق ان الفخذ عورۃ الخ۔ ( نیل، ج2، ص: 62 ) یعنی بیشتر علماءبقول امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اسی کے قائل ہیں کہ ران بھی شرم گاہ میں داخل ہے اور امام احمدوامام مالک کی روایت میں صرف قبل اور دبرہی شرمگاہ ہیں۔ ران شرمگاہ میں داخل نہیں ہے۔ اہل ظاہر اور ابن جریر اور اصطخری وغیرہ کا یہی مسلک ہے۔ مگرحق یہ ہے کہ ران بھی شرمگاہ میں داخل ہے۔ وقد تقرر فی الاصول ان القول ارجح من الفعل۔ ( نیل ) یعنی اصول میں یہ مقرر ہوچکا ہے کہ جہاں قول اور فعل میں بظاہر تضاد نظر آئے وہاں قول کو ترجیح دی جائے گی۔پس متعدد روایات میں آپ ﷺ کا ارشاد الفخذ عورۃ ( یعنی ران بھی شرمگاہ میں داخل ہے ) وارد ہے۔ رہا آپ کا فعل سوحضرت علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الرابع غایۃ مافی ہذہ الواقعۃ ان یکون ذالک بالنبی ﷺ الخ یعنی چوتھی تاویل یہ بھی کی گئی ہے کہ اس واقعہ کی غایت یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ آنحضرت ﷺ کی خصوصیات طیبات میں سے ہو۔حضرت زیدبن ثابت رحمۃ اللہ علیہ جن کا ذکر یہاں آیا ہے، یہ انصاری ہیں جو آنحضرت ﷺ کی طرف سے وحی قرآن لکھنے پر مامور تھے اور حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جمع قرآن کا شرف ان کو حاصل ہوا۔ آنحضرت ﷺ کے ارشاد پر انھوں نے کتب یہود اور سریانی زبان کا علم حاصل کرلیاتھا اور اپنے علم وفضل کے لحاظ سے یہ صحابہ میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔روایت میں امہات المؤمنین میں سے ایک محترمہ خاتون صفیہ بنت حیی کا ذکر آیا ہے جو ایک یہودی سردار کی صاحبزادی تھیں۔ یہ جنگ خیبر میں جب لونڈی بن کر گرفتارہوئیں توآنحضرت ﷺ نے ان کے احترام کے پیش نظر ان کو آزاد کردیا ان کی اجازت سے آپ نے ان کو اپنے حرم محترم میں داخل فرمالیا۔ خیبر سے روانہ ہوکر مقام صہباء پر رسم عروسی ادا کی گئی اور جو کچھ لوگوں کے پاس کھانے کا سامان تھا، اس کو جمع کرکے دعوت ولیمہ کی گئی۔ کھانے میں صرف پنیر، چھوہارے اور گھی کا ملیدہ تھا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا صبر و تحمل اور اخلاق حسنہ میں ممتاز مقام رکھتی تھیں، حضورعلیہ السلام بھی ان سے بے حد محبت فرماتے تھے۔ ساٹھ سال کی عمر میں رمضان 50ھ میں آپ کی وفات ہوئی۔ ( ؓ)
376.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کا رخ کیا تو ہم نے نماز فجر خیبر کے نزدیک اندھیرے میں (اول وقت میں) ادا کی۔ پھر نبی ﷺ اور حضرت ابوطلحہ ؓ سوار ہوئے۔ میں حضرت ابوطلحہ کے پیچھے سوار تھا۔ نبی ﷺ نے خیبر کی گلیوں میں اپنی سواری کو ایڑی لگائی، (دوڑتے وقت) میرا گھٹنا نبی ﷺ کی ران مبارک سے چھو جاتا تھا۔ پھر آپ نے اپنی ران سے چادر ہٹا دی یہاں تک کہ مجھے نبی ﷺ کی ران مبارک کی سفیدی نظر آنے لگی اور جب آپ بستی کے اندر داخل ہو گئے تو آپ نے تین دفعہ یہ کلمات فرمائے: ’’اللہ أکبر، خیبر ویران ہوا۔ جب ہم کسی قوم کے آنگن میں پڑاؤ کرتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح بڑی ہولناک ہوتی ہے جو قبل ازیں متنبہ کیے گئے ہوں۔‘‘ حضرت انس ؓ کہتے ہیں: بستی کے لوگ اپنے کام کاج کے لیے نکلے تو کہنے لگے: یہ محمد (ﷺ) اور ان کا لشکر آ پہنچا۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے خیبر کو بزور شمشیر فتح کیا۔ پھر قیدی جمع کیے گئے تو حضرت دحیہ ؓ آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! مجھے ان قیدیوں میں سے ایک لونڈی عطا فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: ’’جاؤ کوئی لونڈی لے لو۔‘‘ چنانچہ انھوں نے صفیہ بنت حیی کو لے لیا۔ پھر ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا: اے اللہ کے نبی! آپ نے قبیلہ قریظہ اور نضیر کے سردار کی بیٹی صفیہ بنت حیی حضرت دحیہ کو دے دی، حالانکہ آپ کے علاوہ کوئی اس کے مناسب نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اچھا اسے (دحیہ ؓ کو) صفیہ سمیت بلاؤ۔‘‘ چنانچہ وہ صفیہ سمیت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی ﷺ نے جب صفیہ کو دیکھا تو (دحیہ سے) فرمایا: ’’تم اس کے علاوہ قیدیوں میں سے کوئی اور لونڈی لے لو۔‘‘ حضرت انس ؓ کہتے ہیں: پھر نبی ﷺ نے صفیہ کو آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا۔ ثابت بنانی نے حضرت انس ؓ سے پوچھا: اے ابوحمزہ نبی ﷺ نے ان کا حق مہر کیا مقرر کیا تھا؟ انہوں نے کہا: خود ان کی آزادی۔ آپ نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا حتی کہ جب روانہ ہوئے تو راستے ہی میں حضرت ام سلیم ؓ نے صفیہ کو آپ کے لیے آراستہ کر کے رات کو آپ کے پاس بھیجا اور صبح کو نبی ﷺ نے بحیثیت دولہا فرمایا: ’’جس کے پاس جو کچھ ہے وہ یہاں لے آئے۔‘‘ اور آپ نے چمڑے کا ایک دسترخوان بچھا دیا تو کوئی کھجوریں لایا اور کوئی گھی لایا۔ راوی حدیث (عبدالعزیز) کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ حضرت انس نے ستو کا بھی ذکر کیا۔ پھر انہوں نے ملیدہ تیار کیا اور یہی رسول اللہ ﷺ کی دعوت ولیمہ تھی۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے ران کے واجب الستر ہونے یا نہ ہونے کے متعلق دونوں طرح کے دلائل ذکر کر دیے ہیں، لیکن کوئی فیصلہ نہیں فرمایا، کیونکہ ران کے عورة (قابل الستر) نہ ہونے کے متعلق جو مضبوط دلیل ہے وہ حدیث انس ہے جسے امام بخاری ؒ نے تفصیل سے نقل فرمایا ہے۔ اس میں چند ایک احتمالات ہیں جن کی بنا پر اس کے عورة نہ ہونے کے متعلق استدلال محل نظر بن جاتا ہے۔ شاید اسی بنا پر امام بخاری ؒ نے اس کے متعلق دو ٹوک فیصلہ نہیں کیا، وہ احتمالات حسب ذیل ہیں: صحیح مسلم کی روایت میں (انحسر الإزار) کے الفاظ ہیں جس کے معنی ہیں کہ چادر خود بخود اوپر ہو گئی، رسول اللہ ﷺ نے اسے از خود اوپر نہیں اٹھایا۔ (صحیح مسلم، الجهاد، حدیث:4665 (1365)) اس کے علاوہ مسند امام احمد اور طبرانی میں بھی روایت انھیں الفاظ سے نقل ہوئی ہے، اس روایت کو جب محدث اسماعیلی ؒ نے بیان کیا تو اس کے الفاظ بایں طور ہیں (خرالإزار) ’’آپ کی چادر گر پڑی ۔‘‘عربی زبان میں لفظ خر بمعنی وقوع بھی انحسارکی طرح لازم استعمال ہوتا ہے، اگر یہ صحیح ہے تو معنی یہ ہوئے کہ رسول اللہ ﷺ نے از خود اپنی ران سے چادر نہیں ہٹائی، بلکہ بھیڑیا سواری کو تیز دوڑانے کی وجہ سے ران کا حصہ کھل گیا۔ رسول اللہ ﷺ کی جلالت قدر کے شایان شان بھی یہی ہے کہ آپ کی طرف دانستہ ران کے کھولنے کا انتساب نہ کیا جائے، خصوصاً جبکہ آپ کے ارشادات سے اس کا قابل سترہونا ثابت بھی ہو چکا ہو۔ حضرت انس ؓ نے جو اس فعل کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کی ہے وہ شاید اس لیے کہ انھوں نے حالت مذکورہ میں ران مبارک کو کھلا دیکھا تو یہی گمان کر لیا کہ آپ نے قصداًایسا کیا ہے، حالانکہ واقع میں ایسا نہ تھا۔ صحیح بخاری میں چونکہ لفظ (حَسَرَ) ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ دانستہ چادر ران سے ہٹائی ۔اس کا جواب یہ ہے کہ حسر لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے، اس لیے ضروری نہیں کہ اسے متعدی ہی استعمال کیا جائے، بلکہ یہاں لازم کے معنی میں استعمال کرنا زیادہ اولیٰ ہے، بایں صورت معنی ہوں گے کہ ازار از خود کسی وجہ سے ہٹ گیا۔ پھر صحیح مسلم میں مروی الفاظ سے اس معنی کی مزید تائید ہوتی ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ حسر الإزار کے یہ معنی ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ازار (تہ بند ) کو ران کے مقام پر ڈھیلا کیا ہوتا کہ ران سے چمٹا ہوا نہ رہے اور ایسا کرنے میں اتفاقاً ران کا کچھ حصہ کھل گیا ہو۔ یہ احتمال اس روایت کے زیادہ مناسب ہے، جو علامہ کرمانی ؒ نے بعض نسخوں کے حوالے سے بیان کی ہےکہ (عن فخذه) کے بجائے (على فخذه ) ہے، یعنی ازارکا جو حصہ ران پر تھا آپ نے اسے کھولا اور ڈھیلا کیا۔ (شرح الکرماني:31/2) رسول اللہ ﷺ کی سواری ایک تنگ گلی میں جا رہی تھی اور ہوا بھی چل رہی تھی، اس لیے ممکن ہے کہ گھٹنا باربارتہ بند سے الجھتا ہواور ہوا نے اس تہ بند کا رخ پلٹ دیا ہو۔ اگر آپ نے خود ہٹا یا تو اس کی معقول وجہ یہ ہے کہ تہ بند کے بار بار الٹنے سے آپ نے یہ خطرہ محسوس کیا کہ کہیں اس الجھاؤ میں ایسا نہ ہو کہ اس حصے کی بے پردگی ہو جائے جس کی کسی صورت میں نوبت نہیں آنی چاہیے، اس خطرے کے پیش نظر ممکن ہے کہ آپ نے اپنا ازار گھٹنے سے ہٹا کر ران کے نیچے دبا لیا ہو۔ خود صحیح بخاری میں ایک روایت موجود ہے جس میں فخذ کے بجائے قدم کے الفاظ ہیں۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میرا قدم آپ کے قدم سے مس کر رہا تھا۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:610) 2۔ علامہ قرطبی ؒ کہتے ہیں: حدیث انس پر حدیث جرہد کو ترجیح حاصل ہے، کیونکہ اس کے معارض جو بھی احادیث ہیں وہ خاص واقعات و حالات سے متعلق ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت کا احتمال بھی ہو سکتا ہے اور اس امرکا بھی احتمال ہے کہ ران کے متعلق پہلے نرمی چلی آرہی تھی، اس کے بعد اس کے عورۃ ہونے کا حکم ہوا لیکن حدیث جرہد میں اس قسم کا کوئی احتمال نہیں، بلکہ اس میں ایک کلی حکم بیان ہوا ہے۔ (فتح الباري:623/1) حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ امام بخاریؒ نے انھی احتمالات کی بنا پر کہا ہے کہ جرہد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث پر عمل کرنا احتیاط کا تقاضا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ذہن میں اس کے متعلق کچھ تفصیل متوسط اور معتدل موقف رکھتے ہیں وہ اس طرح کہ ران کے اوپر والے حصے کو (سَوأتَين) (قبل دبر)کے ساتھ ملحق خیال کرتے ہیں لیکن وہ حصہ جو گھٹنے کی جانب ہے اس کے متعلق کچھ نرم گوشہ اس طرح ہے کہ بے تکلف احباب اور وہ حضرات جو بکثرت آنے جانے والے ہیں ان کے سامنے کشف کا مضائقہ نہیں، لیکن اجانب اور وہ حضرات جو كبھی کبھار آنے جانے والے ہوں یا ایسے لوگ جن سے بے تکلفی نہ ہو ان کے سامنے امام بخاری ؒ بھی کشف فخذ کی اجازت نہیں دیتے۔ واللہ أعلم۔
نوٹ:اس حدیث سے متعلق دیگر مباحث الجهاد اور کتاب النکاح میں بیان ہوں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
369
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
371
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
371
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
371
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت امام ابوعبداللہ ( بخاری ) نے کہا کہ ابن عباس، جرہد اور محمد بن حجش نے نبی کریم ﷺ سے یہ نقل کیا کہ ران شرمگاہ ہے۔ انس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ( جنگ خیبر میں ) اپنی ران کھولی۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری ) کہتے ہیں کہ انس ؓ کی حدیث سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے۔ اور جرہد کی حدیث میں بہت احتیاط ملحوظ ہے۔ اس طرح ہم اس بارے میں علماء کے باہمی اختلاف سے بچ جاتے ہیں۔کیوں کہ اگرران بالفرض ستر نہیں تب بھی اس کے چھپانے میں کوئی برائی نہیں۔اور ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہا کہ عثمان ؓ آئے تو نبی کریم ﷺ نے اپنے گھٹنے ڈھانک لیے اور زید بن ثابت نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ پر ایک مرتبہ وحی نازل فرمائی۔ اس وقت آپ ﷺ کی ران مبارک میری ران پر تھی، آپ کی ران اتنی بھاری ہو گئی تھی کہ مجھے اپنی ران کی ہڈی ٹوٹ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔تشریح : حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک ران شرمگاہ میں داخل ہے، اس لیے اس کا چھپانا واجب ہے۔ اور ابن ابی ذائب رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوداؤدظاہری رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ران شرمگاہ میں داخل نہیں ہے۔ محلّی میں امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اگرران شرمگاہ میں داخل ہوتی تواللہ پاک اپنے رسولﷺ کی جو معصوم اور پاک تھے، ران نہ کھولتا، نہ کوئی اس کو دیکھ لیتا۔ امام بخاری کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے، باب کے تحت حضرت عبداللہ بن عباس کی جس حدیث کا ذکر امام بخاری لائے ہیں اس کوترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے اور جرہد کی حدیث کو امام مالک نے مؤطا میں اور محمد بن حجش کی حدیث کو حاکم نے مستدرک میں اور امام بخاری نے تاریخ میں نکالا ہے۔ مگران سب کی سندوں میں کلام ہے۔ حضرت انس بن مالک کی روایت یہاں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ خود لائے ہیں اور آپ کا فیصلہ احتیاطاً ران ڈھانکنے کا ہے وجوباً نہیں۔ آپ نے مختلف روایات میں تطبیق دینے کے لیے یہ درمیانی راستہ اختیار فرمایا ہے۔ جو آپ کی کمال دانائی کی دلیل ہے، ایسے فروعی اختلافات میں درمیانی راستے تلاش کئے جاسکتے ہیں مگرعلماءکے دلوں میں وسعت کی ضرورت ہے، اللہ پیدا کرے۔امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ ران کا شرمگاہ میں داخل ہونا صحیح ہے اور دلائل سے ثابت ہے، مگرناف اور گھٹنا سترمیں داخل نہیں ہیں۔ آپ کی تقریر یہ ہے۔ قال النووی ذہب اکثر العلماءالی ان الفخذ عورۃ وعن احمد ومالک فی روایۃ العورۃ القبل والدبر فقط وبہ قال اہل الظاہر وابن جریر والاصطخریوالحق ان الفخذ عورۃ الخ۔ ( نیل، ج2، ص: 62 ) یعنی بیشتر علماءبقول امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اسی کے قائل ہیں کہ ران بھی شرم گاہ میں داخل ہے اور امام احمدوامام مالک کی روایت میں صرف قبل اور دبرہی شرمگاہ ہیں۔ ران شرمگاہ میں داخل نہیں ہے۔ اہل ظاہر اور ابن جریر اور اصطخری وغیرہ کا یہی مسلک ہے۔ مگرحق یہ ہے کہ ران بھی شرمگاہ میں داخل ہے۔ وقد تقرر فی الاصول ان القول ارجح من الفعل۔ ( نیل ) یعنی اصول میں یہ مقرر ہوچکا ہے کہ جہاں قول اور فعل میں بظاہر تضاد نظر آئے وہاں قول کو ترجیح دی جائے گی۔پس متعدد روایات میں آپ ﷺ کا ارشاد الفخذ عورۃ ( یعنی ران بھی شرمگاہ میں داخل ہے ) وارد ہے۔ رہا آپ کا فعل سوحضرت علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الرابع غایۃ مافی ہذہ الواقعۃ ان یکون ذالک بالنبی ﷺ الخ یعنی چوتھی تاویل یہ بھی کی گئی ہے کہ اس واقعہ کی غایت یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ آنحضرت ﷺ کی خصوصیات طیبات میں سے ہو۔حضرت زیدبن ثابت رحمۃ اللہ علیہ جن کا ذکر یہاں آیا ہے، یہ انصاری ہیں جو آنحضرت ﷺ کی طرف سے وحی قرآن لکھنے پر مامور تھے اور حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جمع قرآن کا شرف ان کو حاصل ہوا۔ آنحضرت ﷺ کے ارشاد پر انھوں نے کتب یہود اور سریانی زبان کا علم حاصل کرلیاتھا اور اپنے علم وفضل کے لحاظ سے یہ صحابہ میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔روایت میں امہات المؤمنین میں سے ایک محترمہ خاتون صفیہ بنت حیی کا ذکر آیا ہے جو ایک یہودی سردار کی صاحبزادی تھیں۔ یہ جنگ خیبر میں جب لونڈی بن کر گرفتارہوئیں توآنحضرت ﷺ نے ان کے احترام کے پیش نظر ان کو آزاد کردیا ان کی اجازت سے آپ نے ان کو اپنے حرم محترم میں داخل فرمالیا۔ خیبر سے روانہ ہوکر مقام صہباء پر رسم عروسی ادا کی گئی اور جو کچھ لوگوں کے پاس کھانے کا سامان تھا، اس کو جمع کرکے دعوت ولیمہ کی گئی۔ کھانے میں صرف پنیر، چھوہارے اور گھی کا ملیدہ تھا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا صبر و تحمل اور اخلاق حسنہ میں ممتاز مقام رکھتی تھیں، حضورعلیہ السلام بھی ان سے بے حد محبت فرماتے تھے۔ ساٹھ سال کی عمر میں رمضان 50ھ میں آپ کی وفات ہوئی۔ ( ؓ)
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کا رخ کیا تو ہم نے نماز فجر خیبر کے نزدیک اندھیرے میں (اول وقت میں) ادا کی۔ پھر نبی ﷺ اور حضرت ابوطلحہ ؓ سوار ہوئے۔ میں حضرت ابوطلحہ کے پیچھے سوار تھا۔ نبی ﷺ نے خیبر کی گلیوں میں اپنی سواری کو ایڑی لگائی، (دوڑتے وقت) میرا گھٹنا نبی ﷺ کی ران مبارک سے چھو جاتا تھا۔ پھر آپ نے اپنی ران سے چادر ہٹا دی یہاں تک کہ مجھے نبی ﷺ کی ران مبارک کی سفیدی نظر آنے لگی اور جب آپ بستی کے اندر داخل ہو گئے تو آپ نے تین دفعہ یہ کلمات فرمائے: ’’اللہ أکبر، خیبر ویران ہوا۔ جب ہم کسی قوم کے آنگن میں پڑاؤ کرتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح بڑی ہولناک ہوتی ہے جو قبل ازیں متنبہ کیے گئے ہوں۔‘‘ حضرت انس ؓ کہتے ہیں: بستی کے لوگ اپنے کام کاج کے لیے نکلے تو کہنے لگے: یہ محمد (ﷺ) اور ان کا لشکر آ پہنچا۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے خیبر کو بزور شمشیر فتح کیا۔ پھر قیدی جمع کیے گئے تو حضرت دحیہ ؓ آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! مجھے ان قیدیوں میں سے ایک لونڈی عطا فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: ’’جاؤ کوئی لونڈی لے لو۔‘‘ چنانچہ انھوں نے صفیہ بنت حیی کو لے لیا۔ پھر ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا: اے اللہ کے نبی! آپ نے قبیلہ قریظہ اور نضیر کے سردار کی بیٹی صفیہ بنت حیی حضرت دحیہ کو دے دی، حالانکہ آپ کے علاوہ کوئی اس کے مناسب نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اچھا اسے (دحیہ ؓ کو) صفیہ سمیت بلاؤ۔‘‘ چنانچہ وہ صفیہ سمیت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی ﷺ نے جب صفیہ کو دیکھا تو (دحیہ سے) فرمایا: ’’تم اس کے علاوہ قیدیوں میں سے کوئی اور لونڈی لے لو۔‘‘ حضرت انس ؓ کہتے ہیں: پھر نبی ﷺ نے صفیہ کو آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا۔ ثابت بنانی نے حضرت انس ؓ سے پوچھا: اے ابوحمزہ نبی ﷺ نے ان کا حق مہر کیا مقرر کیا تھا؟ انہوں نے کہا: خود ان کی آزادی۔ آپ نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا حتی کہ جب روانہ ہوئے تو راستے ہی میں حضرت ام سلیم ؓ نے صفیہ کو آپ کے لیے آراستہ کر کے رات کو آپ کے پاس بھیجا اور صبح کو نبی ﷺ نے بحیثیت دولہا فرمایا: ’’جس کے پاس جو کچھ ہے وہ یہاں لے آئے۔‘‘ اور آپ نے چمڑے کا ایک دسترخوان بچھا دیا تو کوئی کھجوریں لایا اور کوئی گھی لایا۔ راوی حدیث (عبدالعزیز) کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ حضرت انس نے ستو کا بھی ذکر کیا۔ پھر انہوں نے ملیدہ تیار کیا اور یہی رسول اللہ ﷺ کی دعوت ولیمہ تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ نے ران کے واجب الستر ہونے یا نہ ہونے کے متعلق دونوں طرح کے دلائل ذکر کر دیے ہیں، لیکن کوئی فیصلہ نہیں فرمایا، کیونکہ ران کے عورة (قابل الستر) نہ ہونے کے متعلق جو مضبوط دلیل ہے وہ حدیث انس ہے جسے امام بخاری ؒ نے تفصیل سے نقل فرمایا ہے۔ اس میں چند ایک احتمالات ہیں جن کی بنا پر اس کے عورة نہ ہونے کے متعلق استدلال محل نظر بن جاتا ہے۔ شاید اسی بنا پر امام بخاری ؒ نے اس کے متعلق دو ٹوک فیصلہ نہیں کیا، وہ احتمالات حسب ذیل ہیں: صحیح مسلم کی روایت میں (انحسر الإزار) کے الفاظ ہیں جس کے معنی ہیں کہ چادر خود بخود اوپر ہو گئی، رسول اللہ ﷺ نے اسے از خود اوپر نہیں اٹھایا۔ (صحیح مسلم، الجهاد، حدیث:4665 (1365)) اس کے علاوہ مسند امام احمد اور طبرانی میں بھی روایت انھیں الفاظ سے نقل ہوئی ہے، اس روایت کو جب محدث اسماعیلی ؒ نے بیان کیا تو اس کے الفاظ بایں طور ہیں (خرالإزار) ’’آپ کی چادر گر پڑی ۔‘‘عربی زبان میں لفظ خر بمعنی وقوع بھی انحسارکی طرح لازم استعمال ہوتا ہے، اگر یہ صحیح ہے تو معنی یہ ہوئے کہ رسول اللہ ﷺ نے از خود اپنی ران سے چادر نہیں ہٹائی، بلکہ بھیڑیا سواری کو تیز دوڑانے کی وجہ سے ران کا حصہ کھل گیا۔ رسول اللہ ﷺ کی جلالت قدر کے شایان شان بھی یہی ہے کہ آپ کی طرف دانستہ ران کے کھولنے کا انتساب نہ کیا جائے، خصوصاً جبکہ آپ کے ارشادات سے اس کا قابل سترہونا ثابت بھی ہو چکا ہو۔ حضرت انس ؓ نے جو اس فعل کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کی ہے وہ شاید اس لیے کہ انھوں نے حالت مذکورہ میں ران مبارک کو کھلا دیکھا تو یہی گمان کر لیا کہ آپ نے قصداًایسا کیا ہے، حالانکہ واقع میں ایسا نہ تھا۔ صحیح بخاری میں چونکہ لفظ (حَسَرَ) ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ دانستہ چادر ران سے ہٹائی ۔اس کا جواب یہ ہے کہ حسر لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے، اس لیے ضروری نہیں کہ اسے متعدی ہی استعمال کیا جائے، بلکہ یہاں لازم کے معنی میں استعمال کرنا زیادہ اولیٰ ہے، بایں صورت معنی ہوں گے کہ ازار از خود کسی وجہ سے ہٹ گیا۔ پھر صحیح مسلم میں مروی الفاظ سے اس معنی کی مزید تائید ہوتی ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ حسر الإزار کے یہ معنی ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ازار (تہ بند ) کو ران کے مقام پر ڈھیلا کیا ہوتا کہ ران سے چمٹا ہوا نہ رہے اور ایسا کرنے میں اتفاقاً ران کا کچھ حصہ کھل گیا ہو۔ یہ احتمال اس روایت کے زیادہ مناسب ہے، جو علامہ کرمانی ؒ نے بعض نسخوں کے حوالے سے بیان کی ہےکہ (عن فخذه) کے بجائے (على فخذه ) ہے، یعنی ازارکا جو حصہ ران پر تھا آپ نے اسے کھولا اور ڈھیلا کیا۔ (شرح الکرماني:31/2) رسول اللہ ﷺ کی سواری ایک تنگ گلی میں جا رہی تھی اور ہوا بھی چل رہی تھی، اس لیے ممکن ہے کہ گھٹنا باربارتہ بند سے الجھتا ہواور ہوا نے اس تہ بند کا رخ پلٹ دیا ہو۔ اگر آپ نے خود ہٹا یا تو اس کی معقول وجہ یہ ہے کہ تہ بند کے بار بار الٹنے سے آپ نے یہ خطرہ محسوس کیا کہ کہیں اس الجھاؤ میں ایسا نہ ہو کہ اس حصے کی بے پردگی ہو جائے جس کی کسی صورت میں نوبت نہیں آنی چاہیے، اس خطرے کے پیش نظر ممکن ہے کہ آپ نے اپنا ازار گھٹنے سے ہٹا کر ران کے نیچے دبا لیا ہو۔ خود صحیح بخاری میں ایک روایت موجود ہے جس میں فخذ کے بجائے قدم کے الفاظ ہیں۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میرا قدم آپ کے قدم سے مس کر رہا تھا۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:610) 2۔ علامہ قرطبی ؒ کہتے ہیں: حدیث انس پر حدیث جرہد کو ترجیح حاصل ہے، کیونکہ اس کے معارض جو بھی احادیث ہیں وہ خاص واقعات و حالات سے متعلق ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت کا احتمال بھی ہو سکتا ہے اور اس امرکا بھی احتمال ہے کہ ران کے متعلق پہلے نرمی چلی آرہی تھی، اس کے بعد اس کے عورۃ ہونے کا حکم ہوا لیکن حدیث جرہد میں اس قسم کا کوئی احتمال نہیں، بلکہ اس میں ایک کلی حکم بیان ہوا ہے۔ (فتح الباري:623/1) حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ امام بخاریؒ نے انھی احتمالات کی بنا پر کہا ہے کہ جرہد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث پر عمل کرنا احتیاط کا تقاضا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ذہن میں اس کے متعلق کچھ تفصیل متوسط اور معتدل موقف رکھتے ہیں وہ اس طرح کہ ران کے اوپر والے حصے کو (سَوأتَين) (قبل دبر)کے ساتھ ملحق خیال کرتے ہیں لیکن وہ حصہ جو گھٹنے کی جانب ہے اس کے متعلق کچھ نرم گوشہ اس طرح ہے کہ بے تکلف احباب اور وہ حضرات جو بکثرت آنے جانے والے ہیں ان کے سامنے کشف کا مضائقہ نہیں، لیکن اجانب اور وہ حضرات جو كبھی کبھار آنے جانے والے ہوں یا ایسے لوگ جن سے بے تکلفی نہ ہو ان کے سامنے امام بخاری ؒ بھی کشف فخذ کی اجازت نہیں دیتے۔ واللہ أعلم۔
نوٹ:اس حدیث سے متعلق دیگر مباحث الجهاد اور کتاب النکاح میں بیان ہوں گے۔
ترجمۃ الباب:
(ابوعبداللہ حضرت امام بخاری فرماتے ہیں کہ) حضرت ابن عباس، حضرت جرہد اور حضرت محمد بن حجش ؓ سے بیان کیا جاتا ہے، وہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ "ران چھپانے کی چیز ہے۔" حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ اپنی ران کو کھول دیا۔ حضرت انس کی حدیث سند کے لحاظ سے قوی ہے جبکہ احتیاط کا تقاضا ہے کہ حضرت جرہد ؓ کی حدیث پر عمل کیا جائے، تاکہ اس مسئلے میں جمع و تطبیق کے ذریعے سے علماء کے اختلاف سے نکلا جا سکے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں: جب حضرت عثمان ؓآئے تو نبی ﷺ نے اپنے گھٹنوں کو ڈھانک لیا۔ حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر ایک مرتبہ وحی نازل فرمائی تو اس وقت آپ کی ران میری ران کے اوپر تھی، وہ مجھ پر اتنی بھاری ہو گئی کہ مجھے اپنی ران کی ہڈی ٹوٹ جانے کا اندیشہ لاحق ہو گیا۔
فائدہ: امام بخاری نے فریقین کے دلائل بیان کر کے اپنی طرف سے کوئی محاکمہ نہیں کیا، صرف ایک تبصرہ فرمایا کہ سند کے اعتبار سے حضرت انس ؓ کی روایت قوی ہے اور احتیاط کا تقاضا ہے کہ حضرت جرہد سے مروی حدیث پر عمل کیا جائے۔ پھر احتیاط کا پہلو اختیار کرنے کی وجہ بیان کر دی کہ جب کسی معاملے میں حلت و حرمت کا اختلاف ہو تو تقاضائے احتیاط یہی ہے کہ حرمت پر عمل کیا جائے۔ اس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے کہ کہا ہمیں عبدالعزیز بن صہیب نے انس بن مالک ؓ سے روایت کر کے کہ نبی کریم ﷺ غزوہ خبیر میں تشریف لے گئے۔ ہم نے وہاں فجر کی نماز اندھیرے ہی میں پڑھی۔ پھر نبی ﷺ سوار ہوئے۔ اور ابوطلحہ بھی سوار ہوئے۔ میں ابوطلحہ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ نبی ﷺ نے اپنی سواری کا رخ خیبر کی گلیوں کی طرف کر دیا۔ میرا گھٹنا نبی کریم ﷺ کی ران سے چھو جاتا تھا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے اپنی ران سے تہبند کو ہٹایا۔ یہاں تک کہ میں نبی کریم ﷺ کی شفاف اور سفید رانوں کی سفیدی اور چمک دیکھنے لگا۔ جب آپ خیبر کی بستی میں داخل ہوئے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ أكبر الله سب سے بڑا ہے، خیبر برباد ہو گیا، جب ہم کسی قوم کے آنگن میں اتر جائیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح منحوس ہو جاتی ہے۔ آپ نے یہ تین مرتبہ فرمایا، اس نے کہا کہ خیبر کے یہودی لوگ اپنے کاموں کے لیے باہر نکلے ہی تھے کہ وہ چلا اٹھے محمد ( ﷺ ) آن پہنچے۔ اور عبدالعزیز راوی نے کہا کہ بعض حضرت انس ؓ سے روایت کرنے والے ہمارے ساتھیوں نے والخمیس کا لفظ بھی نقل کیا ہے ( یعنی وہ چلا اٹھے کہ محمد ﷺ لشکر لے کر پہنچ گئے ) پس ہم نے خیبر لڑ کر فتح کر لیا اور قیدی جمع کئے گئے۔ پھر دحیہ ؓ آئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! قیدیوں میں سے کوئی باندی مجھے عنایت کیجیئے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ کوئی باندی لے لو۔ انھوں نے صفیہ بنت حیی کو لے لیا۔ پھر ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ! صفیہ جو قریظہ اور نضیر کے سردار کی بیٹی ہیں، انھیں آپ نے دحیہ کو دے دیا۔ وہ تو صرف آپ ہی کے لیے مناسب تھیں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ دحیہ کو صفیہ کے ساتھ بلاؤ، وہ لائے گئے۔ جب نبی کریم ﷺ نے انھیں دیکھا تو فرمایا کہ قیدیوں میں سے کوئی اور باندی لے لو۔ راوی نے کہا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے صفیہ کو آزاد کر دیا اور انھیں اپنے نکاح میں لے لیا۔ ثابت بنانی نے حضرت انس ؓ سے پوچھا کہ ابوحمزہ! ان کا مہر آنحضور ﷺ نے کیا رکھا تھا؟ حضرت انس ؓ نے فرمایا کہ خود انھیں کی آزادی ان کا مہر تھا اور اسی پر آپ نے نکاح کیا۔ پھر راستے ہی میں ام سلیم ( ؓا حضرت انس ؓ کی والدہ ) نے انھیں دلہن بنایا اور نبی کریم ﷺ کے پاس رات کے وقت بھیجا۔ اب نبی کریم ﷺ دولہا تھے، اس لیے آپ نے فرمایا کہ جس کے پاس بھی کچھ کھانے کی چیز ہو تو یہاں لائے۔ آپ نے ایک چمڑے کا دستر خوان بچھایا۔ بعض صحابہ کھجور لائے، بعض گھی، عبدالعزیز نے کہا کہ میرا خیال ہے حضرت انس ؓ نے ستو کا بھی ذکر کیا۔ پھر لوگوں نے ان کا حلوہ بنا لیا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کا ولیمہ تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdul ' Aziz (RA): Anas (RA) said, 'When Allah's Apostle (ﷺ) invaded Khaibar, we offered the Fajr prayer yearly in the morning) when it was still dark. The Prophet (ﷺ) rode and Abu Talha rode too and I was riding behind Abu Talha. The Prophet (ﷺ) passed through the lane of Khaibar quickly and my knee was touching the thigh of the Prophet (ﷺ). He uncovered his thigh and I saw the whiteness of the thigh of the Prophet (ﷺ). When he entered the town, he said, 'Allahu Akbar! Khaibar is ruined. Whenever we approach near a (hostile) nation (to fight) then evil will be the morning of those who have been warned.' He repeated this thrice. The people came out for their jobs and some of them said, 'Muhammad (has come).' (Some of our companions added, "With his army.") We conquered Khaibar, took the captives, and the booty was collected. Dihya came and said, 'O Allah's Prophet! Give me a slave girl from the captives.' The Prophet (ﷺ) said, 'Go and take any slave girl.' He took Safiya bint Huyai. A man came to the Prophet (ﷺ) and said, 'O Allah's Apostles! You gave Safiya bint Huyai to Dihya and she is the chief mistress of the tribes of Quraiza and An-Nadir and she befits none but you.' So the Prophet (ﷺ) said, 'Bring him along with her.' So Dihya came with her and when the Prophet (ﷺ) saw her, he said to Dihya, 'Take any slave girl other than her from the captives.' Anas (RA) added: The Prophet (ﷺ) then manumitted her and married her." Thabit asked Anas (RA), "O Abu Hamza! What did the Prophet (ﷺ) pay her (as Mahr)?" He said, "Herself was her Mahr for he manumitted her and then married her." Anas (RA) added, "While on the way, Um Sulaim dressed her for marriage (ceremony) and at night she sent her as a bride to the Prophet. So the Prophet (ﷺ) was a bridegroom and he said, 'Whoever has anything (food) should bring it.' He spread out a leather sheet (for the food) and some brought dates and others cooking butter. (I think he ( Anas (RA)) mentioned As-SawTq). So they prepared a dish of Hais (a kind of meal). And that was Walrma (the marriage banquet) of Allah's Apostle."