تشریح:
1۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ اس حدیث سے سرخ کپڑے پہننے کا جواز ثابت ہوتا ہے، مگر احناف اس کے خلاف ہیں، وہ کہتے ہیں کہ سرخ لباس مکروہ ہے اور انھوں نے حدیث مذکور کی یہ تاویل کی ہے کہ یہ حلہ (جوڑا ) ایسی چادروں پر مشتمل تھا۔ جس میں سرخ دھاریاں تھیں۔ (فتح الباري:629/1) لیکن احناف کے ہاں اس میں تفصیل ہے جسے ملا علی قاری ؒ نے بایں طور بیان کیا ہے، اگر وہ رنگ عصفر یا زعفران کا ہو تو مردوں کے لیے اس کا استعمال مکروہ ہے اور اگر ان دو چیزوں کے علاوہ سرخ رنگ ہو تو دیکھا جائے کہ سرخ رنگ شوخ ہے یا ہلکا اگر شوخ ہو تو اس کا استعمال مکروہ تنزیہی یا خلاف تقوی ہے اور اگر رنگ پھیکا ہو تو اس کا استعمال مباح ہے، پھر اگر سرخ کپڑا دھاری دار ہو، یعنی زمین سفید اور اس پر سرخ دھاریاں ہو تو اس کے استعمال میں استحباب کا درجہ ہے۔ ترقی کر کے اسے سنت بھی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ اسے پسند فرماتے تھے۔ امام بخاری ؒ نے لکھا ہے کہ آپ کا یہ جوڑا خالص سرخ رنگ کا نہ تھا بلکہ اس میں سرخ دھاریاں تھیں اس سے مردوں کو سرخ لباس پہنچنے کا جواز ملتا ہے، بشرطیکہ عورتوں اور کفار سے مشابہت نیز شہرت و ریا کاری کی ہوس نہ ہو۔ (عون الباري:508/1) حافظ ابن حجر ؒ نے محدث ابن التین ؒ کے حوالے سے لکھا ہے: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ سرخ جوڑا جنگی حالات کے پیش نظر زیب تن فرمایا تھا۔ یہ خیال محل نظر ہے، کیونکہ یہ واقعہ حجۃ الوداع کے بعد کا ہے اور اس وقت کسی قسم کے جنگی حالات نہ تھے۔ (فتح الباري:629/1) واضح رہے کہ سرخ رنگ کے متعلق یہ تفصیل کپڑوں سے متعلق ہے چمڑے کے متعلق کسی رنگ میں کراہت نہیں۔ 2۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ سے مروی ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے ایک آدمی گزرا جس نے دوسرخ کپڑے پہن رکھے تھے، اس نے آپ کو سلام کیا لیکن آپ نے اس کا جواب نہ دیا۔ (سنن أبي داود، للباس، حدیث:4069) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سرخ لباس کو اچھا خیال نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اس کے سلام کا جواب دینا بھی گوارانہیں فرمایا۔ جبکہ امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث میں ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے سرخ لباس زیب تن فرمایا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کے متعدد جوابات دیے ہیں، اس کی سند ضعیف ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے صراحت کی ہے۔ (فتح الباري:629/1) اگرچہ امام ترمذی ؒ نے اسے حسن قراردیا ہے۔ (جامع الترمذي، الأدب، حدیث:2807) اگر اس کی سند کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس سے اقوی حدیث اس کے معارض ہے اور اسے ترجیح ہوگی۔ پھر یہ خاص واقعہ ہے جس میں کسی اور چیز کا احتمال بھی ہو سکتا ہے، ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی اور وجہ سے سلام کا جواب نہ دیا ہو۔ امام بیہقی ؒ نے اس کا بایں طور پر جواب دیا ہے کہ اسے تیار کرنے کے بعد رنگا گیا تھا، اگر اس کے دھاگے کو رنگ کر کپڑا تیار کیا جائے تو چنداں حرج نہیں۔ امام ترمذیؒ نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اس کا لباس عصفر بوٹی سے رنگا ہوا تھا، اگر اس کے بغیر کسی اور چیز سے سرخ رنگ دیا جائے تو ممانعت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام ترمذی ؒ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے (باب ماجاء في کراھیة لبس المعصفر للرجال) ’’عصفر سے رنگے ہوئے کپڑوں کی کراہت۔‘‘ بہر حال سرخ رنگ کے کپڑے استعمال کیے جا سکتے ہیں اور اس میں کوئی ممانعت نہیں، بشرطیکہ عورتوں اور کفار سے مشابہت نہ ہو۔