تشریح:
1۔ صوم رمضان فرض ہے اور قیام رمضان نفل اس کے باوجود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تطوع قیام رمضان کے باب کو مقدم کیا ہے اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔
(1) رمضان کے اعمال میں پہلا عمل قیام رمضان ہے جو چاند دیکھتے ہی شروع ہوجاتا ہے روزہ بعد میں رکھا جاتا ہے
(2) قیام رمضان صیام رمضان کی تمہید ہے اور تمہید ہمیشہ اصل سے پہلے ذکر کی جاتی ہے۔
(3) اس میں اشارہ ہے کہ فرائض کی ادائیگی سنت کے راستے سے ہونی چاہیے یہی قبولیت کا راستہ ہے۔قیام رمضان فعلی عبادت ہے اور ہمیشہ فعلی عبادات کو مقدم کیا جاتا ہے جبکہ صیام رمضان میں کچھ چیزوں کو چھوڑنا ہوتا ہے اس لیے روزہ فعلی عبادت نہیں ہے۔
2۔ امام صاحب نے تطوع قیام رمضان کے ساتھ عنوان قائم کرتے وقت احتساب کی قید ذکر نہیں کی کیونکہ یہ عمل ہی استحضار نیت کے لیے کافی ہے لیکن صوم رمضان میں ایسی کوئی صورت نہ تھی جو تذکیر کاکام دیتی اس لیے آپ نے عنوان ہی میں احتساب کا اضافہ کردیا اگرچہ حدیث میں دونوں کے لیے احتساب کی شرط مذکورہے۔
3۔ ایمان اور احتساب لازم و ملزوم نہیں کہ ایک کا ذکر دوسرے کے لیے کافی ہو کیونکہ ایسا ہوتا ہے کہ عمل تو ایمان کا ہے مگر فاعل کی نیت میں اخلاص نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایک عمل بڑے اخلاص سے ادا کیا جاتا ہے مگر یہ ایمان کے پیش نظر نہیں بلکہ عامل کااپنا طبعی رجحان ہوتا ہے۔
4۔ احتساب کے معنی اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھنا ہیں۔ عبادت کی قبولیت کے لیے احتساب کا ہونا ضروری ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں احتساب کا اضافہ فرما کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ایسی اشیاء ایمان میں اس وقت شمار ہوں گی جب مع الاحتساب ہوں اس کے بغیر ان کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
5۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اعمال صالحہ ایمان میں داخل ہیں۔ ان سے ایمان کی نشوونما ہوتی ہے اور ان میں کمی بیشی سے ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔