Sahi-Bukhari
2. Belief
30. Chapter: To observe fasting (according to Islamic teachings)] during the month of Ramadan (sincerely and faithfully) hoping for Allah's Reward only, is a part of faith
باب:اس بیان میں کہ خالص نیت کے ساتھ رمضان کے روزے رکھنا ایمان کا جزو ہیں۔
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: To observe fasting (according to Islamic teachings)] during the month of Ramadan (sincerely and faithfully) hoping for Allah's Reward only, is a part of faith)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
38.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے اپنے ایمان کے پیش نظر حصول ثواب کے لیے ماہ رمضان کے روزے رکھے اس کے تمام گزشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘
تشریح:
1۔ صوم رمضان فرض ہے اور قیام رمضان نفل اس کے باوجود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تطوع قیام رمضان کے باب کو مقدم کیا ہے اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ (1) رمضان کے اعمال میں پہلا عمل قیام رمضان ہے جو چاند دیکھتے ہی شروع ہوجاتا ہے روزہ بعد میں رکھا جاتا ہے (2) قیام رمضان صیام رمضان کی تمہید ہے اور تمہید ہمیشہ اصل سے پہلے ذکر کی جاتی ہے۔ (3) اس میں اشارہ ہے کہ فرائض کی ادائیگی سنت کے راستے سے ہونی چاہیے یہی قبولیت کا راستہ ہے۔قیام رمضان فعلی عبادت ہے اور ہمیشہ فعلی عبادات کو مقدم کیا جاتا ہے جبکہ صیام رمضان میں کچھ چیزوں کو چھوڑنا ہوتا ہے اس لیے روزہ فعلی عبادت نہیں ہے۔ 2۔ امام صاحب نے تطوع قیام رمضان کے ساتھ عنوان قائم کرتے وقت احتساب کی قید ذکر نہیں کی کیونکہ یہ عمل ہی استحضار نیت کے لیے کافی ہے لیکن صوم رمضان میں ایسی کوئی صورت نہ تھی جو تذکیر کاکام دیتی اس لیے آپ نے عنوان ہی میں احتساب کا اضافہ کردیا اگرچہ حدیث میں دونوں کے لیے احتساب کی شرط مذکورہے۔ 3۔ ایمان اور احتساب لازم و ملزوم نہیں کہ ایک کا ذکر دوسرے کے لیے کافی ہو کیونکہ ایسا ہوتا ہے کہ عمل تو ایمان کا ہے مگر فاعل کی نیت میں اخلاص نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایک عمل بڑے اخلاص سے ادا کیا جاتا ہے مگر یہ ایمان کے پیش نظر نہیں بلکہ عامل کااپنا طبعی رجحان ہوتا ہے۔ 4۔ احتساب کے معنی اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھنا ہیں۔ عبادت کی قبولیت کے لیے احتساب کا ہونا ضروری ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں احتساب کا اضافہ فرما کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ایسی اشیاء ایمان میں اس وقت شمار ہوں گی جب مع الاحتساب ہوں اس کے بغیر ان کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 5۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اعمال صالحہ ایمان میں داخل ہیں۔ ان سے ایمان کی نشوونما ہوتی ہے اور ان میں کمی بیشی سے ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
38
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
38
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
38
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
38
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے اپنے ایمان کے پیش نظر حصول ثواب کے لیے ماہ رمضان کے روزے رکھے اس کے تمام گزشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ صوم رمضان فرض ہے اور قیام رمضان نفل اس کے باوجود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تطوع قیام رمضان کے باب کو مقدم کیا ہے اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ (1) رمضان کے اعمال میں پہلا عمل قیام رمضان ہے جو چاند دیکھتے ہی شروع ہوجاتا ہے روزہ بعد میں رکھا جاتا ہے (2) قیام رمضان صیام رمضان کی تمہید ہے اور تمہید ہمیشہ اصل سے پہلے ذکر کی جاتی ہے۔ (3) اس میں اشارہ ہے کہ فرائض کی ادائیگی سنت کے راستے سے ہونی چاہیے یہی قبولیت کا راستہ ہے۔قیام رمضان فعلی عبادت ہے اور ہمیشہ فعلی عبادات کو مقدم کیا جاتا ہے جبکہ صیام رمضان میں کچھ چیزوں کو چھوڑنا ہوتا ہے اس لیے روزہ فعلی عبادت نہیں ہے۔ 2۔ امام صاحب نے تطوع قیام رمضان کے ساتھ عنوان قائم کرتے وقت احتساب کی قید ذکر نہیں کی کیونکہ یہ عمل ہی استحضار نیت کے لیے کافی ہے لیکن صوم رمضان میں ایسی کوئی صورت نہ تھی جو تذکیر کاکام دیتی اس لیے آپ نے عنوان ہی میں احتساب کا اضافہ کردیا اگرچہ حدیث میں دونوں کے لیے احتساب کی شرط مذکورہے۔ 3۔ ایمان اور احتساب لازم و ملزوم نہیں کہ ایک کا ذکر دوسرے کے لیے کافی ہو کیونکہ ایسا ہوتا ہے کہ عمل تو ایمان کا ہے مگر فاعل کی نیت میں اخلاص نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایک عمل بڑے اخلاص سے ادا کیا جاتا ہے مگر یہ ایمان کے پیش نظر نہیں بلکہ عامل کااپنا طبعی رجحان ہوتا ہے۔ 4۔ احتساب کے معنی اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھنا ہیں۔ عبادت کی قبولیت کے لیے احتساب کا ہونا ضروری ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں احتساب کا اضافہ فرما کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ایسی اشیاء ایمان میں اس وقت شمار ہوں گی جب مع الاحتساب ہوں اس کے بغیر ان کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 5۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اعمال صالحہ ایمان میں داخل ہیں۔ ان سے ایمان کی نشوونما ہوتی ہے اور ان میں کمی بیشی سے ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابن سلام نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن فضیل نے خبر دی، انھوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، انھوں نے ابوسلمہ سے روایت کی، وہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کے روزے ایمان اور خالص نیت کے ساتھ رکھے اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے گئے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Whoever observes fasts during the month of Ramadan out of sincere faith, and hoping to attain Allah's rewards, then all his past sins will be forgiven."