تشریح:
1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ ان عنوانات سے ایک شبہے کا ازالہ فرمانا چاہتے ہیں، حدیث میں ہے کہ میرے لیے مٹی کو مسجد اور طہور بنادیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک صحابی نے سجدے کے لیے پھونک مار کر مٹی کو اڑانا چاہا تو آپ نے فرمایا کہ ایسا نہ کر بلکہ اپنی پیشانی کو خاک آلود کر۔ ان روایات سے شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ شاید مٹی کے علاوہ کسی دوسری چیز پر سجدہ جائز نہیں۔ امام بخاری ؒ اس کی نفی کر رہے ہیں کہ زمین پر سجدہ ضروری نہیں، بلکہ بوریا چٹائی اور دوسرے کسی بھی طرح کے پاک فرش پر سجدہ کرنا جائز ہے۔2۔ اس روایت سے پہلے حضرت میمونہ ؓ کی حدیث میں خمرہ پرنماز پڑھنے کا ذکر آچکا تھا۔ یہاں مستقل عنوان قائم کر کے اس حدیث کو پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی؟اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری کا مقصد اختلاف سند استخراج مسائل اور مقصود شیخ کا بیان ہے کہ ہر شیخ کا حدیث بیان کرنے کا الگ مقصد ہونا ہے۔ اس سے پہلے امام بخاری کے شیخ مسدد نے اس حدیث کو مطول بیان کیا تھا اور اب ان کے دوسرے شیخ ابو لولید نے اپنے خاص مقصد کے پیش نظر اسے اتنا ہی مختصر بیان کیا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پہلے یہ مسئلہ ضمناً معلوم ہوا تھا یہاں اہمیت کے پیش نظر اسے مستقل عنوان کے تحت لائے ہیں۔ واللہ أعلم۔ 3۔ امام بخاری ؒ کا اس تالیف سے مقصود جمع احادیث ہی نہیں، بلکہ اس کے علاوہ اختلاف سند استنباط مسائل اور استخراج احکام بھی ہے، پھر کہیں تفصیل اور کہیں اختصار پیش نظر رکھا ہے۔ جیسا کہ الصلاة علی النفساء کے عنوان میں حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے مروی ایک حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک نفاس والی عورت کی نماز جنازہ پڑھی اور اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے۔ پھر اس کے بعد ایک مستقل عنوان قائم کیا، یعنی عورت کے جنازے میں کہاں کھڑا ہونا چاہیے؟اس عنوان کے ثبوت کے لیے پھر حدیث سمرہ پیش کی، لیکن اس کی سند دوسری لائے ہیں۔ اس باب میں مستقل طور پر بیان فرمایا کہ اگر میت عورت ہو تو اس کے جنازے کے لیے درمیان میں کھڑا ہونا چاہیے۔ واللہ أعلم۔