باب: نبی کریم ﷺ کا انصار اور مہاجرین کے درمیان بھائی چارہ قائم کرنا۔
)
Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: Brotherhood between the Ansar and the Muhajirun)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3811.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمارے پاس حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ آئے تو نبی ﷺ نے ان کے اور حضرت سعد بن ربیع ؓ کے درمیان سلسلہ مؤاخات قائم کر دیا۔ حضرت سعد ؓ صاحب ثروت انسان تھے۔ انہوں نے کہا: انصار جانتے ہیں کہ میں ان سب سے زیادہ مالدار ہوں۔ میں اپنا مال اپنے اور تمہارے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دیتا ہوں اور میری دو بیویاں ہیں۔ ان میں سے جو تمہیں پسند ہو اسے دیکھ لو۔ میں اسے طلاق دے دیتا ہوں۔ جب اس کی عدت ختم ہو جائے تو اس سے نکاح کر لو۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے فرمایا: اللہ تعالٰی آپ کے اہل و عیال میں برکت فرمائے! وہ اس دن واپس نہ آئے حتی کہ انہوں نے گھی اور پنیر سے کچھ نفع حاصل کیا۔ پھر وہ تھوڑی مدت ٹھہرے ہوں گے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہاں حاضر ہوئے جبکہ ان پر زردی کے نشانات تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا: ’’کیا بات ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: میں نے ایک انصاری عورت سے نکاح کر لیا ہے۔ آپ نے فرمایا:’’اسے مہر کتنا دیا ہے؟‘‘ عرض کیا: گھٹلی کے وزن برابر یا گھٹلی بھر سونا دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہو۔‘‘
تشریح:
حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور حضرت سعد بن ربیع ؓ خزرجی نقیب ہیں۔ رسول اللہ ﷺنے مہاجرین کی آبادکاری کے لیے سلسلہ مؤاخات شروع فرمایا: اس میں انصار کی قربانی، ایثار اور مہاجرین سے ان کی ہمدردی بے مثال ہے۔ تاریخ اس طرح کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے لیکن مہاجرین نے اس ایثار اور قربانی سے کوئی ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا، بلکہ اپنی طرف سے شان بے نیازی اور استغنا کا مظاہرہ کرتے ہوئے منڈی کا راستہ اختیار کر کے محنت مزدوری کرنا پسند کیا۔ مذکورہ احادیث میں انصار کی ہمدردی اور مہاجرین کی شان بے نیازی کو نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ انصار کا مجموعی طرز عمل یہی تھا جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے۔
جب مہاجرین اپنے وطن مکہ کو چھوڑ کر مدینہ آئے تو بہت پریشان ہونے لگے، گھر بار اموال واقارب کے چھوٹنے کا غم تھا، آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر ڈیڑھ سو انصار اور مہاجرین میں بھائی چارہ قائم کرادیا جس کی وجہ سے مہاجرین اور انصاری دونوں آپس میں ایک دوسرے کو سگے بھائی سے زیادہ سمجھنے لگے یہی واقعہ مؤاخات ہے جس کی نظیر تاریخ اقوام میں ملنی محال ہے۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمارے پاس حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ آئے تو نبی ﷺ نے ان کے اور حضرت سعد بن ربیع ؓ کے درمیان سلسلہ مؤاخات قائم کر دیا۔ حضرت سعد ؓ صاحب ثروت انسان تھے۔ انہوں نے کہا: انصار جانتے ہیں کہ میں ان سب سے زیادہ مالدار ہوں۔ میں اپنا مال اپنے اور تمہارے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دیتا ہوں اور میری دو بیویاں ہیں۔ ان میں سے جو تمہیں پسند ہو اسے دیکھ لو۔ میں اسے طلاق دے دیتا ہوں۔ جب اس کی عدت ختم ہو جائے تو اس سے نکاح کر لو۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے فرمایا: اللہ تعالٰی آپ کے اہل و عیال میں برکت فرمائے! وہ اس دن واپس نہ آئے حتی کہ انہوں نے گھی اور پنیر سے کچھ نفع حاصل کیا۔ پھر وہ تھوڑی مدت ٹھہرے ہوں گے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہاں حاضر ہوئے جبکہ ان پر زردی کے نشانات تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا: ’’کیا بات ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: میں نے ایک انصاری عورت سے نکاح کر لیا ہے۔ آپ نے فرمایا:’’اسے مہر کتنا دیا ہے؟‘‘ عرض کیا: گھٹلی کے وزن برابر یا گھٹلی بھر سونا دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور حضرت سعد بن ربیع ؓ خزرجی نقیب ہیں۔ رسول اللہ ﷺنے مہاجرین کی آبادکاری کے لیے سلسلہ مؤاخات شروع فرمایا: اس میں انصار کی قربانی، ایثار اور مہاجرین سے ان کی ہمدردی بے مثال ہے۔ تاریخ اس طرح کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے لیکن مہاجرین نے اس ایثار اور قربانی سے کوئی ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا، بلکہ اپنی طرف سے شان بے نیازی اور استغنا کا مظاہرہ کرتے ہوئے منڈی کا راستہ اختیار کر کے محنت مزدوری کرنا پسند کیا۔ مذکورہ احادیث میں انصار کی ہمدردی اور مہاجرین کی شان بے نیازی کو نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ انصار کا مجموعی طرز عمل یہی تھا جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے حضرت انس بن مالک ؓ نے کہ جب عبدالرحمن بن عوف ؓ (مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے تو) رسول کریم ﷺ نے ان کے اور سعد بن ربیع ؓ کے درمیان بھائی چارہ کرادیا، حضرت سعد ؓ بہت دولت مند تھے، انہوں نے عبدالرحمن بن عوف ؓ سے کہا: انصار کو معلوم ہے کہ میں ان میں سب سے زیادہ مالدار ہوں اس لیے میں اپنا آدھا آدھا مال اپنے اور آپ کے درمیان بانٹ دینا چاہتاہوں اور میرے گھر میں دوبیویاں ہیں جو آپ کو پسند ہو میں اسے طلاق دے دوں گا اس کی عدت گزرجانے پر آپ اس سے نکاح کرلیں، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے کہا اللہ تمہارے اہل ومال میں برکت عطافرمائے، (مجھ کو اپنا بازار دکھلادو) پھر وہ بازار سے اس وقت تک واپس نہیں آئے جب تک کچھ گھی اور پنیر بطور نفع بچا نہیں لیا، تھوڑے ہی دنوں کے بعد جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں وہ حاضر ہوئے تو جسم پر زردی کا نشان تھا۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ بولے کہ میں نے ایک انصاری خاتون سے شادی کرلی ہے۔ آپ نے پوچھا مہر کیادیا ہے؟ بولے ایک گٹھلی کے برابر سونا یا (یہ کہا کہ) سونے کی ایک گٹھلی دی ہے، اس کے بعد آپ نے فرمایا اچھا اب ولیمہ کرو خواہ ایک بکری ہی سے ہو۔
حدیث حاشیہ:
مجتہد مطلق حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو بہت سے مقامات پر نقل فرما کر اس سے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے جو آپ کے مجتہد مطلق ہونے کی بین دلیل ہے، جو حضرات ایسے جلیل القدر امام کو محض ناقل کہہ کر آ پ کی درایت کا انکار کرتے ہیں ان کو اپنی اس حرکت پر نادم ہونا چاہیے، کہ وہ چاند پر تھوکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ھداھم اللہ إلی صراط مستقیم۔ (آمین) یہاں حضرت امام کا مقصد اس حدیث کے لانے سے واقعہ مؤاخات کو بیان کرنا ہے کہ آنحضر تﷺ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت سعد بن ربیع کو آپس میں بھائی بھائی بنادیا۔ رضي اللہ عنهم أجمعین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): When 'Abdur-Rahman bin 'Auf came to us, Allah's Apostle (ﷺ) made a bond of fraternity between him and Sad bin Ar-Rabi' who was a rich man, Sad said, "The Ansar know that I am the richest of all of them, so I will divide my property into two parts between me and you, and I have two wives; see which of the two you like so that I may divorce her and you can marry her after she becomes lawful to you by her passing the prescribed period (i.e. 'Idda) of divorce. 'Abdur Rahman said, "May Allah bless you your family (i.e. wives) for you." (But 'Abdur-Rahman went to the market) and did not return on that day except with some gain of dried yogurt and butter. He went on trading just a few days till he came to Allah's Apostle (ﷺ) bearing the traces of yellow scent over his clothes. Allah's Apostle (ﷺ) asked him, "What is this scent?" He replied, "I have married a woman from the Ansar." Allah's Apostle (ﷺ) asked, "How much Mahr have you given?" He said, "A date-stone weight of gold or a golden date-stone." The Prophet (ﷺ) said, "Arrange a marriage banquet even with a sheep."