تشریح:
1۔ وہ قریش کوڈانٹتے تھے کہ ملت ابراہیمی کا دعویٰ کرتے ہو لیکن اس پر عمل نہیں کرتے بلکہ شرک میں مبتلا ہو۔
2۔ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ انھیں دین ابراہیم کہاں سے ملا۔ بہرحال وہ بت پرستی سے بیزار تھے اوردین ابراہیم کی حقانیت کا اعتقاد رکھتے تھے اس لیے دین ابراہیم کی طرف خود کو منسوب کیا۔
3۔ عرب میں مصنوعی غیرت اور بھوک کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کوزندہ درگور کرنے کا رواج تھا۔ قرآن کریم نے اس رسم بد کا بڑی سختی سے نوٹس لیا ہے۔ حضرت زسید بن عمرو بن نفیل نے اس رسم کے خلاف تحریک چلائی کہ تم لوگ مفلسی کے موہوم اندیشے سے لڑکیوں کو قتل کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ کورازق نہیں مانتے ہو۔ وہ ایسی لڑکیوں کی خود کفالت کرتے۔ جب وہ جوان ہوجاتیں تو ان کے والدین کے حوالے کردیتے یا ان کی اجازت سے ان کی شادی کا بندوبست کرتے تھے۔
4۔ بہرحال زید بن عمرو ب نفیل دین ابراہیم کے علمبردار تھے۔ انھیں بتوں سے سخت نفرت تھی۔ عربوں کی رسومات بد کا سختی سے انکار کرتے تھے۔ واللہ اعلم۔