تشریح:
1۔اس حدیث سے ہجرت کی قدروقیمت اور اہمیت وفضیلت بتانا مقصود ہے۔2۔رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین صحابہ کرام ؓ کے لیے استقامت کی دعا فرمائی ہے کہ اے اللہ! ان کی ہجرت کو قائم رکھ اور شرف قبولیت سے ہمکنار کر۔ انھیں ہجرت کے برعکس کوئی کام کرکے الٹے پاؤں مت پھیر۔ پھر آپ نے حضرت سعد بن خولہ ؓ پر اظہار افسوس فرمایا کہ وہ بے چارے اپنی مجبوری کی وجہ سے مکہ چھوڑ کر مدینہ طیبہ نہ آسکے اور انھیں مکے ہی میں موت آئی۔3۔ اس حدیث میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے متعلق ایک پیش گوئی کاذکر ہے،چنانچہ وہ اس کے بعد چالیس سال تک زندہ رہے۔ عراق اور فارس فتح کیا۔مسلمانوں کو فتوحات سے مالا مال اور مشرکین کو نقصان ہوا کہ وہ شکست کھا کرمیدان چھوڑ گئے۔ 4۔اس وقت حضرت سعد ؓ کی ایک بیٹی تھی۔ اس کےبعد اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد کثیر سے نوازا۔ 5۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام مسلمانوں کو تنگ دست وقلاش بننے کے بجائے ذرائع سے زیادہ مال کما کر دولت مند بننے کی تعلیم دیتا ہے۔ ہاں، اگرحرام ذرائع سے مال جمع کیا جائے یا وہ مال ایمان واسلام سے غافل کردے تو ایسا مال اللہ کی طرف سے موجب لعنت ہے۔