تشریح:
1۔اس حدیث سے انصار کا ایثار اور مہاجرین کی خودداری روز روشن کی طرح واضح ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد ؓنے کہا: میری دوبیویاں ہیں۔ آپ دیکھ لیں جو زیادہ پسند ہو میں اسے طلاق دے دوں اور عدت گزارنے کے بعد آپ اس سے شادی کرلیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انصار نے بہت بڑھ چڑھ کر اپنے مہاجر بھائیوں کا اعزاز واکرام کیا تھا اور بے انتہا ایثار وقربانی سے کام لیا تھا لیکن مہاجرین نے ان کی نوازشات سے کوئی غلط فائدہ نہیں اُٹھایا بلکہ ان سے صرف اتنا حاصل کیا جس سے وہ اپنی کمزور معیشت کی کمر سیدھی کرسکتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ انصار نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ آپ ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان ہمارے کھجور کےباغات تقسیم کردیں۔ آپ نےفرمایا: ’’نہیں۔انصار نے اپنے بھائیوں سے کہا:آپ باغات میں محنت کیا کریں،ہم پیداوار میں آپ کو شریک رکھیں گے۔انھوں نے کہا یہ ٹھیک ہے۔ہم اس پیش کش کوقبول کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث:3782۔)2۔ بہرحال ر سول اللہ ﷺ نے اس مؤاخات کو محض کھوکھلے الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا بلکہ اسے ایک ایسا نافذ العمل عہد وپیمان قراردیا جوخون اورمال سے مربوط تھا۔ اس بھائی چارے میں ایثار وہمدردی کے ملے جلے جذبات تھے، اس لیے سلسلہ مؤاخات نے اس نئے معاشرے کو بڑے نادر اور تابناک کارناموں سے پُر کردیا تھا۔