تشریح:
1۔ حضرت بلال ؓ ملے میں امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ جب وہ مسلمان ہوئے تو امیہ انھیں سخت سزا دینا شروع کردی۔ بالآخر حضرت ابو بکر ؓ نے انھیں خرید کر آزاد کردیا۔ 2۔ مذکورہ حدیث میں حضرت بلال نے اپنے جذبات کا اظہار اسی وجہ سے کیا تھا۔ اس واقعے کی تفصیل حسب ذیل ہے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کہتے ہیں کہ میں نے امیہ بن خلف سے ایک تحریری معاہدہ کیا تھا کہ وہ مکے میں میری جائیداد کی حفاظت کرے گا۔ اور میں مدینہ طیبہ میں اس کی جائیداد کو محفوظ رکھو ں گا۔ بدر کے جب لوگ سو گئے تو میں پہاڑ کی طرف نکلا تاکہ حسب معاہدہ اس کی حفاظت کروں۔ اچانک حضرت بلال ؓ نے اسے دیکھا لیا۔ وہ دوڑ کر انصار کے پاس گئے اور کہا: اگر آج امیہ بچ نکلا تو میری کوئی نجات نہیں۔ اس کے بعد انصار کا ایک گروہ ہمارے تعاقب میں ہو لیا۔ جب مجھے خطرہ لا حق ہوا کہ وہ ہمیں پکڑ لیں گے تو میں نے امیہ کے بیٹے کو چھوڑ دیا تاکہ وہ اس کے قتل میں مشغول ہو جائیں اور میں امیہ کو لے کر نکل جاؤں لیکن انھوں نے اس کے بیٹے کو قتل کر کے جلدی سے ہمارا پیچھا کیا اور ہم سے آملے۔ امیہ بہت بھاری آدمی تھا جب انھوں نے ہمیں پالیا تو میں نے امیہ کو گٹھنوں کے بل لیٹ جانے کا کہا وہ لیٹ گیا تو میں اسے بچانے کے لیے اس پر جھک گیا لیکن انصار نے میرے پیچھے سے اسے تلواریں مارنا شروع کردیں حتی کہ اسے قتل کردیا۔ میرے پاؤں پر بھی اس کی تلوارسے زخم آیا۔ راوی کہتا ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف ؓ بعد میں ہمیں وہ زخم کا نشان دکھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الوکالة، حدیث:2301) چونکہ امیہ کو قتل کرتے وقت حضرت بلال ؓ بھی انصار کے ساتھ تلوار مارنے میں شریک تھے۔ اس لیے حضرت بلال ؓ بھی امیہ کے قاتلوں میں شمار ہوتے ہیں امیہ کا ایک دوسرا کردار آئندہ حدیث میں بیان ہو رہا ہے۔