تشریح:
1۔ اس سے مراد ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جو کہتے ہیں کہ اعمال کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے حالانکہ قرآن کریم میں نماز کو ایمان سے تعبیر کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ ایمان اور نماز کا خصوصی تعلق ہے کیونکہ نماز ایمان کا عظیم شعار ہے بندے اور کفر کے درمیان حد فاصل ہے، دین کا مستحکم ستون ہے، اس تعلق کی وجہ سے صلاۃ گویا عین ایمان ہے۔ جب یہ عمل ایمان ٹھہرا تو اس میں کمی بیشی بھی ممکن ہے۔ نماز پر ایمان کا اطلاق، اطلاق الکل علی الجزء ہے لہٰذا ایمان کے لیے نماز ایک جز ثابت ہوئی۔ ھذا ھوالمقصود
2۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلی وہ نماز جو بیت اللہ کی طرف منہ کر کے ادا کی گئی نماز عصر تھی روایات کی رو سے وہ نماز ظہر تھی۔ دراصل واقعات یہ ہیں کہ بنو سلمہ جو مسجد نبوی سے تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے وہاں حضرت بشر بن براء کی وفات ہوگئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں جنازے کے لیے تشریف لے گئے۔ وہیں نماز ظہر کا وقت ہو گیا تو آپ نے ظہر کی نماز مسجد بنو سلمہ میں اد افرمائی دو رکعت پڑھنے کے بعد تحویل قبلہ کا حکم آ گیا۔ آپ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اسی حالت میں بیت اللہ کی جانب متوجہ ہو گئے۔ اس مسجد کا نام مسجد قبلتین ہے۔ آج بھی اس مسجد میں دو محرابیں ہیں۔ اس کے بعد وہ پہلی نماز جو پوری بیت اللہ کی طرف منہ کر کے ادا کی گئی وہ نماز عصر تھی جو مسجد نبوی میں ادا ہوئی پھر ان کی وساطت سے دوسری مساجد تک اطلاع پہنچی چنانچہ ایک آدمی مسجد بنی حارثہ کے پاس سے گزرا تو وہ ابھی نماز عصر پڑھ رہے تھے انھیں دوران نماز میں تحویل قبلہ کی اطلاع دی گئی وہ بلا تردد گھوم گئے۔ پھر اگلے دن مدینے سے باہر اہل قباء کو نماز فجر کے وقت اطلاع ملی۔ اب ان مختلف روایات (ظہر عصر اور فجر) میں تطبیق دی جا سکتی ہے۔ (فتح الباري: 1؍ 131، 651)
3۔ روایت کے آخر میں زہیر راوی کا ایک طریق ہے جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب التفسیر (حدیث نمبر: 4488) میں متصلا ذکر فرمایا ہے۔ اس میں تحویل قبلہ سے پہلے چند صحابہ کے مقتول ہونے کا ذکر ہے۔ حالانکہ اس وقت تک کوئی جنگ وغیرہ نہیں ہوئی تھی لیکن ضروری نہیں کہ جنگ ہی سے قتل کا واقعہ پیش آئے کفار سے دشمنی کی وجہ سے بھی قتل کی نوبت آسکتی ہے۔ ان صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی تعداد جو تحویل قبلہ سے پہلے فوت ہوئے دس ہے تین مکہ مکرمہ میں عبد اللہ بن شہاب، مطلب بن ازہر اور سکران بن عمرو عامری اور پانچ حبشہ میں خطاب بن حارث، عمرو بن امیہ، عبد اللہ بن حارث، عمروبن عبد العزیٰ اور عدی بن نضلہ اور مدینہ منورہ میں براء بن معرور اور اسعد بن زرارۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ان حضرات کے متعلق تشویش تھی جس کا روایت میں ذکر ہے چنانچہ آیت کے نزول سے تسلی ہو گئی۔ (فتح الباري:132/1)
4۔ اس حدیث سے خبرواحد کی حجیت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے ایک قطعی چیز کومحض ایک صحابی کے حلفیہ بیان سے بدل دیا۔ اس کا مطلب ہے کہ بعض اوقات خبر واحد بھی قطعیت کا فائدہ دیتی ہے بالخصوص جب مقرون بالقرائن ہو۔ اگرچہ یقین کے مراتب مختلف ہوتے ہیں تاہم فقہاء کا یہ کہنا محل نظرہے کہ خبر واحد ہر وقت ظن کا فائدہ دیتی ہے۔ حدیث فقہاء کے اس خود ساختہ اصول کی تردید کرتی ہے۔