تشریح:
1۔ اس حدیث سے بھی ثاب ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سہو کی صورت میں نماز کااعادہ نہیں فرمایا۔ آپ ﷺ نے سلام پھیر نے کے بعد لوگوں کی طرف توجہ فرمائی، یادآنے پر آپ نے پہلی نماز پر بنا فرمائی، کعبے کی طرف پشت کرنے کی صورت میں آپ حکماً نماز کے حکم میں تھے، اگرنماز سےخارج ہوجاتے تو سابقہ نماز پر بنانہ کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو انسان غلطی کی بنا پر قبلے سے انحراف کرے گا، اس کی نماز درست ہے۔ اعادے کی ضرورت نہیں۔ (عمدة القاري:392/3) 2۔ اس روایت کا تعلق عنوان کے دوسرے جز سے اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں اپنے ظن کے مطابق عمل کیا جو خلاف واقعہ تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے جب آپ کو توجہ دلائی تو آپ نے خلاف واقعہ کیے ہوئے عمل کو فساد نماز کا موجب نہیں ٹھہرایا، بلکہ اسی وقت سہو کے دو سجدے کیے۔ معلوم ہواکہ ظن اگرواقعے کے خلاف بھی ہوتو فساد صلاۃ کا موجب نہیں۔ اس روایت کاتعلق عنوان کے پہلے جز سے بھی ہو سکتا ہے کہ استقبال قبلہ اتنی اہم چیز ہے کہ سجدہ سہو کے لیے بھی اس کا وجوب ثابت ہے۔