صحیح بخاری
8. کتاب: نماز کے احکام و مسائل
30. باب: اللہ عزوجل کا ارشاد ہے کہ ”مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ“۔
صحيح البخاري
8. كتاب الصلاة
30. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} [البقرة: 125]
Sahi-Bukhari
8. Prayers (Salat)
30. Chapter: The Statement of Allah " And take you (people) the Maqam (place) of Ibrahim (Abraham) (or the stone on which Abrahim stood while he was building the Kabah as a place of prayer (for some of your Salat e.g., two Raka after the Tawaf of Kabah)"
باب: اللہ عزوجل کا ارشاد ہے کہ ”مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ“۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: The Statement of Allah " And take you (people) the Maqam (place) of Ibrahim (Abraham) (or the stone on which Abrahim stood while he was building the Kabah as a place of prayer (for some of your Salat e.g., two Raka after the Tawaf of Kabah)")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
404.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، جب نبی ﷺ کعبے میں داخل ہوئے تو آپ نے اس کے سب گوشوں میں دعا فرمائی، باہر نکلنے تک بیت اللہ کے اندر کوئی نماز نہیں پڑھی۔ جب آپ بیت اللہ سے باہر تشریف لائے تو اس کے سامنے دو رکعت ادا کیں اور فرمایا: ’’یہی قبلہ ہے۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
397
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
398
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
398
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
398
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
مقام ابراہیم سے مراد ہو پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر بیت اللہ کی تھی۔اس پر آپ کے نقوش پاثبت ہیں اور یہ بیت اللہ کے سامنے نصب ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اصل مقصد تو نمازوں کے لیے استقبال قبلہ کو بیان کرنا ہے لیکن اس میں یہ بتایا ہے کہ طواف کے بعد دورکعت مقام ابراہیم کے پاس پڑھنا زیادہ بہتر ہے لیکن اس بات کو نظر سے اوجھل نہیں ہونے دیا کہ اصل حکم استقبال کعبہ ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامقصد یہ ہے کہ ہر حکم کو اپنے اپنے مقام پر رکھا جائے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، جب نبی ﷺ کعبے میں داخل ہوئے تو آپ نے اس کے سب گوشوں میں دعا فرمائی، باہر نکلنے تک بیت اللہ کے اندر کوئی نماز نہیں پڑھی۔ جب آپ بیت اللہ سے باہر تشریف لائے تو اس کے سامنے دو رکعت ادا کیں اور فرمایا: ’’یہی قبلہ ہے۔‘‘
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق بن ہمام نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں ابن جریج نے خبر پہنچائی عطاء ابن ابی رباح سے، انھوں نے کہا میں نے ابن عباس ؓ سے سنا کہ جب نبی کریم ﷺ کعبہ کے اندر تشریف لے گئے تو اس کے چاروں کونوں میں آپ نے دعا کی اور نماز نہیں پڑھی۔ پھر جب باہر تشریف لائے تو دو رکعت نماز کعبہ کے سامنے پڑھی اور فرمایا کہ یہی قبلہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
اور یہ اب کبھی منسوخ نہیں ہوگا، یعنی مقام ابراہیم کے پاس اس طرح یہ حدیث باب کے مطابق ہوگئی۔ حضرت الامام کا ان احادیث کے لانے کا مقصد یہ ہے کہ آیت شریفہ:﴿ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى﴾(البقرة:125) میں امروجوب کے لیے نہیں ہے۔ آدمی کعبہ کی طرف منہ کرکے ہر جگہ نماز پڑھ سکتا ہے، خواہ مقام ابراہیم میں پڑھے یا کسی اور جگہ میں۔ اس روایت میں کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا ذکر نہیں ہے، اگلی روایت میں یہ ذکر موجود ہے۔ تطبیق یہ ہے کہ آپ کعبہ کے اندر شاید کئی دفعہ ہوئے، بعض دفعہ آپ نے نماز پڑھی، بعض دفعہ صرف دعا پر اکتفا کیا اور کعبہ میں داخل ہونے کے دونوں طریقے جائز ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): When the Prophet (ﷺ) entered the Ka’bah, he invoked Allah in each and every side of it and did not pray till he came out of it, and offered a two-Rak'at prayer facing the Ka’bah and said, "This is the Qibla."