تشریح:
1۔ اس باب کی روایات میں تین چیزوں کو باعث نفرت قراردیاگیا ہے: نخامہ: سینے کا بلغم۔ مخاط : ناک سے بہنے والی رطوبت۔ بصاق: منہ کاتھوک۔ مسجد کے معاملے میں ان تینوں کاحکم یکساں ہے کہ یہ چیزیں جہاں کہیں نظر آئیں انھیں فوراً زائل کردیا جائے۔ احترام مسجد کا تقاضاہے کہ مسجد کے خادم یا موذن کاانتظار کیے بغیر ہردیکھنے والا اسے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبلے کی طرف منہ کرکے تھوکنا حرام ہے، اگرچہ مسجد سے باہر ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی سنگینی حدیث میں بایں الفاظ بیان کی گئی ہے۔ کہ جو شخص قبلے کی طرف تھوکتا ہے قیامت کے دن جب یہ شخص اللہ کے حضور پیش ہوگا تو اس کا تھوک اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ہوگا۔ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث:3824) ایک روایت میں ہے کہ قبلے کی طرف منہ کرکے تھوکنے والے کو جب قیامت کے دن اٹھایا جائے گا تو اس کاتھوک اس کے چہرے پر ہوگا۔ (صحیح ابن خذیمة:278/2، حدیث:1313) حضرت سائب بن خلاد بیان کرتے ہیں کہ ایک امام مسجد نے دوران نماز میں قبلے کی جانب منہ کرکے تھوک دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے امامت سے معزول کرکے فرمایا:’’تو نے اللہ اور اس کےرسول ﷺ کو ایذادی ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:481) 3۔ دوسری روایت میں سامنے نہ تھوکنے کی یہ وجہ بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس اس کے سامنے ہوتی ہے۔ (صحیح البخاري، حدیث:406) اس سے قبلے کی عظمت معلوم ہوتی ہے، نیز اس کی تاویل کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگرچہ اس حدیث کے پیش نظر معتزلہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ حاضر وناضر ہے۔ یہ ان کی کھلی جہالت ہے، کیونکہ اگرایسا ہوتاتو بائیں جانب یا پاؤں تلے تھوکنا بھی منع ہوتا۔ (فتح الباري:658/1) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے ان لوگوں کی بھی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے عرش پر ہے، لیکن حافظ صاحب ؒ کی جلالت قدر کے باوجود ان کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ متعدد آیات اور بکثرت احادیث اس امر کے متعلق قطعی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے مستوی علی العرش ہے۔ تمام ائمہ سنت کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش معلیٰ پر مستوی ہے اور ہرجگہ اس کی معیت سے مراد اس کی قدرت کاملہ اور وسیع علم ہے۔ بعض اہل علم کا موقف ہے کہ قدرت اور علم اللہ تعالیٰ کی دوالگ الگ صفات ہیں۔ معیت سے قدرت کاملہ اور وسیع علم مرادلینا بھی ایک قسم کی تاویل ہے جس کی ممانعت ہے، لہذا معیت کو بھی اپنے معنی میں ہی رکھا جائےاور یہ موقف اختیار کیاجائے کہ اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق ہر ایک کے ساتھ ہے۔ یہ موقف بھی وزنی اور خاصا محتاط ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء اور اس کی صفات کے متعلق مکمل بحث آئندہ کتاب التوحید میں آئے گی۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔