باب: ہر مقام اور ہر ملک میں مسلمان جہاں بھی رہے نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: [During the obligatory Salat (prayers)] one should face the Qiblah (Kabah at Makkah) wherever one may be)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابوہریرہ ؓ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کعبہ کی طرف منہ کر اور تکبیر کہہ۔تشریح : اس حدیث کو خودامام بخاری نے کتاب الاستیذان میں نکالا ہے۔ مقصد ظاہر ہے کہ دنیائے اسلام کے لیے ہر ہر ملک سے نماز میں سمت کعبہ کی طرف منہ کرنا کافی ہے اس لیے کہ عین کعبہ کی طرف منہ کرنا ناممکن ہے۔ ہاں جو لوگ حرم میں ہوں اور کعبہ نظروں کے سامنے ہو ان کو عین کعبہ کی طرف منہ کرنا ضروری ہے۔ نماز میں کعبہ کی طرف توجہ کرنا اور تمام عالم کے لیے کعبہ کومرکز بنانا اسلامی اتحاد ومرکزیت کا ایک زبردست مظاہر ہ ہے۔ کاش! مسلمان اس حقیقت کو سمجھیں اور ملی طور پر اپنے اندر مرکزیت پیدا کریں۔
405.
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی لیکن رسول اللہ ﷺ چاہتے تھے کہ انہیں کعبے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم ہو جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فر دی:’’ہم آپ کے چہرے کا بار بارآسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔‘‘اس حکم کے بعد آپ نے کعبے کی طرف رخ کر لیا۔اس پر بے عقل لوگوں نے جو یہود تھے، کہا:’’ان لوگوں کو کس چیز نے اس قبلے سے پھیر دیاہے جس کی طرف وہ متوجہ تھے؟کہہ دیجیے! مشرق و مغرب اللہ ہی کی ملکیت ہیں،اللہ جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔‘‘ پھر ایک شخص نے نبی ﷺ کے ہمراہ (قبلہ رخ ہو کر) نماز پڑھی اورنماز کے بعد وہ چلا گیا، پھر نماز عصر میں یہ شخص انصار کی جماعت کے پاس سے گزرا، یہ اس وقت بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے تھے۔ اس شخص نے انہیں اطلاع دی کہ وہ اس بات کا عینی گواہ ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ہے اور آپ ﷺ نے کعبے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے، چنانچہ یہ لوگ اسی وقت گھوم گئے اور اپنا رخ کعبے کی طرف کر لیا۔
تشریح:
1۔ اس روایت سے استقبال قبلہ کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے کہ واقعہ مذکور میں دورکعات پڑھی جاسکتی تھیں، جب معلوم ہواکہ قبلے کے متعلق تبدیلی کا حکم آچکا ہے، اب یہ نہیں ہواکہ اس نماز کو ناتمام چھوڑ کرنئے سرے سے بیت اللہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے اور یہ بھی نہیں ہوا کہ اس نماز کو بیت المقدس ہی کی طرف رخ کیے ہوئے پورا کرلیتے بلکہ استقبال کعبہ کی اہمیت کے پیش نظر دوران نماز ہی میں اسی وقت رخ بدل دیا گیا، حالانکہ اس تبدیلی میں یقیناً بہت زیادہ دشواری ہوئی ہوگی، خاص طور پر امام کے لیے بہت مشکل تھا، کیونکہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے میں رخ شمال کی طرف تھا اور اب اس کے برعکس جنوب کی طرف متوجہ ہونا پڑا۔ بہرحال دشواری تویقیناً ہوئی، لیکن قبلہ اسی حالت میں درست کیا گیا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس تحویل کی کیفیت بایں الفاظ بیان کی ہے: ’’امام مسجد کے اگلے حصے سے پچھلے حصے کی طرف منتقل ہوا کیونکہ وہیں کھڑے کھڑے رخ پھیرلیا جاتا تو آدمیوں کے لیے پیچھے کھڑے ہونے کی جگہ نہ تھی،پھرآدمیوں نے اپنے رخ تبدیل کیے ،عورتیں چل کرآدمیوں کے پیچھے آئیں۔‘‘(فتح الباری:656/1) 2۔ رسول اللہ ﷺ جب مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو مدینے میں اکثر یہودی آباد تھے جو بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے۔ آپ کو کیا حکم ہوا کہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں، اس سے یہودی بہت خوش ہوئے، لیکن آپ کی دلی خواہش تھی کہ قبلہ ابراہیم ؑ یعنی بیت اللہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں، چنانچہ آپ آسمان کی طرف منہ کیے اس حکم کا انتظار کرتے۔ آپ کو تبدیلی قبلہ کا اس لیے بھی انتظار رہتا کہ یہودی اکثر کہا کرتے تھے کہ یہ نبی دیگراحکام میں ہماری مخالفت کرنے کے باوجود ہمارے قبلے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے پر مجبورہے۔ بالاخر سترماہ کے بعد تحویل قبلہ کا حکم آگیا۔ رسول اللہ ﷺ کو بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا بھی حکم ہواتھا۔ وہ آپ کااجتہاد یا اہل کتاب کی تالیف قلبی کی خاطر نہ تھا۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ ہی میں تھے کہ آپ کو بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ مکہ مکرمہ میں تین سال اسی طرح منہ کرکے نماز پڑھتے رہے اور نماز پڑھتے وقت آپ کعبے کو بھی اپنے سامنے کرلیتے، لیکن مدینہ پہنچ کر ایسا ممکن نہیں تھا، کیونکہ بیت اللہ اور بیت المقدس کی سمتیں باہم مخالف ہوگئیں تھیں، اس لیے آپ کو انتظار رہتا کہ کب اللہ تعالیٰ اس کی تبدیلی کا حکم دے، بالآخر آپ کی خواہش کے مطابق تبدیلی قبلہ کا حکم آگیا۔ (فتح الباري:651/1) 3۔ تحویل قبلہ کا حکم کس مسجد اور کس نماز میں ہوا؟اس کے متعلق مختلف روایات ہیں: طبقات ابن سعد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی مسجد میں نماز ظہر پڑھا رہے تھے کہ تحویل کعبہ کے متعلق وحی آئی۔ آپ نے دوران نماز ہی میں کعبے کی طرف منہ کرلیا۔یہ بھی کہاجاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن حضرت بشر بن براء ؓ کی والدہ کے ہاں قبیلہ بنو سلمہ میں گئے تو اس نے آپ کے لیے دعوت طعام کا اہتمام کیا، وہیں نماز ظہر کا وقت ہوگیا تو آپ نے بنو سلمہ کی مقامی مسجد ہی میں نماز پڑھنے کا پروگرام بنایا، ابھی دورکعت ہی پڑھی تھیں کہ کعبے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کاحکم آگیا، چنانچہ آپ دوران نماز ہی میں بیت اللہ کی طرف پھرگئے، اس بنا پر مسجد بنو سلمہ کا نام مسجد قبلتین مشہور ہوا، کیونکہ اس مسجد میں ایک ہی نماز دوقبلوں کی طرف منہ کرکے مکمل کی گئی۔ حضرت بشر بن عباد وہاں نماز پڑھ کرعصر کے وقت بنوحارثہ کی مسجد میں گئے تو وہ عصر کی دورکعت پڑھ چکے تھے۔ آپ نے دوران نماز ہی میں نمازیوں کو تبدیلی کعبہ کی اطلاع کردی تو انھوں نے بھی اسی حالت میں قبلے کی طرف منہ کرلیا۔ (فتح الباري:651/1) چونکہ بنو حارثہ مدینے کے اندر ہی آباد تھے، اس لیے انھیں نماز عصر کے وقت اطلاع ہوگئی۔ البتہ اہل قباء جو مدینے کے باہر تھے، کے پاس صبح کی نماز کے دوران میں اطلاع پہنچی۔ انھوں نے بھی دوران نماز ہی میں بیت اللہ کی طرف منہ کرلیا۔ (فتح الباري: 655-656/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
398
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
399
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
399
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
399
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
ابوہریرہ ؓ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کعبہ کی طرف منہ کر اور تکبیر کہہ۔تشریح : اس حدیث کو خودامام بخاری نے کتاب الاستیذان میں نکالا ہے۔ مقصد ظاہر ہے کہ دنیائے اسلام کے لیے ہر ہر ملک سے نماز میں سمت کعبہ کی طرف منہ کرنا کافی ہے اس لیے کہ عین کعبہ کی طرف منہ کرنا ناممکن ہے۔ ہاں جو لوگ حرم میں ہوں اور کعبہ نظروں کے سامنے ہو ان کو عین کعبہ کی طرف منہ کرنا ضروری ہے۔ نماز میں کعبہ کی طرف توجہ کرنا اور تمام عالم کے لیے کعبہ کومرکز بنانا اسلامی اتحاد ومرکزیت کا ایک زبردست مظاہر ہ ہے۔ کاش! مسلمان اس حقیقت کو سمجھیں اور ملی طور پر اپنے اندر مرکزیت پیدا کریں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی لیکن رسول اللہ ﷺ چاہتے تھے کہ انہیں کعبے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم ہو جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فر دی:’’ہم آپ کے چہرے کا بار بارآسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔‘‘اس حکم کے بعد آپ نے کعبے کی طرف رخ کر لیا۔اس پر بے عقل لوگوں نے جو یہود تھے، کہا:’’ان لوگوں کو کس چیز نے اس قبلے سے پھیر دیاہے جس کی طرف وہ متوجہ تھے؟کہہ دیجیے! مشرق و مغرب اللہ ہی کی ملکیت ہیں،اللہ جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔‘‘ پھر ایک شخص نے نبی ﷺ کے ہمراہ (قبلہ رخ ہو کر) نماز پڑھی اورنماز کے بعد وہ چلا گیا، پھر نماز عصر میں یہ شخص انصار کی جماعت کے پاس سے گزرا، یہ اس وقت بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے تھے۔ اس شخص نے انہیں اطلاع دی کہ وہ اس بات کا عینی گواہ ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ہے اور آپ ﷺ نے کعبے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے، چنانچہ یہ لوگ اسی وقت گھوم گئے اور اپنا رخ کعبے کی طرف کر لیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس روایت سے استقبال قبلہ کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے کہ واقعہ مذکور میں دورکعات پڑھی جاسکتی تھیں، جب معلوم ہواکہ قبلے کے متعلق تبدیلی کا حکم آچکا ہے، اب یہ نہیں ہواکہ اس نماز کو ناتمام چھوڑ کرنئے سرے سے بیت اللہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے اور یہ بھی نہیں ہوا کہ اس نماز کو بیت المقدس ہی کی طرف رخ کیے ہوئے پورا کرلیتے بلکہ استقبال کعبہ کی اہمیت کے پیش نظر دوران نماز ہی میں اسی وقت رخ بدل دیا گیا، حالانکہ اس تبدیلی میں یقیناً بہت زیادہ دشواری ہوئی ہوگی، خاص طور پر امام کے لیے بہت مشکل تھا، کیونکہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے میں رخ شمال کی طرف تھا اور اب اس کے برعکس جنوب کی طرف متوجہ ہونا پڑا۔ بہرحال دشواری تویقیناً ہوئی، لیکن قبلہ اسی حالت میں درست کیا گیا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس تحویل کی کیفیت بایں الفاظ بیان کی ہے: ’’امام مسجد کے اگلے حصے سے پچھلے حصے کی طرف منتقل ہوا کیونکہ وہیں کھڑے کھڑے رخ پھیرلیا جاتا تو آدمیوں کے لیے پیچھے کھڑے ہونے کی جگہ نہ تھی،پھرآدمیوں نے اپنے رخ تبدیل کیے ،عورتیں چل کرآدمیوں کے پیچھے آئیں۔‘‘(فتح الباری:656/1) 2۔ رسول اللہ ﷺ جب مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو مدینے میں اکثر یہودی آباد تھے جو بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے۔ آپ کو کیا حکم ہوا کہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں، اس سے یہودی بہت خوش ہوئے، لیکن آپ کی دلی خواہش تھی کہ قبلہ ابراہیم ؑ یعنی بیت اللہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں، چنانچہ آپ آسمان کی طرف منہ کیے اس حکم کا انتظار کرتے۔ آپ کو تبدیلی قبلہ کا اس لیے بھی انتظار رہتا کہ یہودی اکثر کہا کرتے تھے کہ یہ نبی دیگراحکام میں ہماری مخالفت کرنے کے باوجود ہمارے قبلے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے پر مجبورہے۔ بالاخر سترماہ کے بعد تحویل قبلہ کا حکم آگیا۔ رسول اللہ ﷺ کو بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا بھی حکم ہواتھا۔ وہ آپ کااجتہاد یا اہل کتاب کی تالیف قلبی کی خاطر نہ تھا۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ ہی میں تھے کہ آپ کو بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ مکہ مکرمہ میں تین سال اسی طرح منہ کرکے نماز پڑھتے رہے اور نماز پڑھتے وقت آپ کعبے کو بھی اپنے سامنے کرلیتے، لیکن مدینہ پہنچ کر ایسا ممکن نہیں تھا، کیونکہ بیت اللہ اور بیت المقدس کی سمتیں باہم مخالف ہوگئیں تھیں، اس لیے آپ کو انتظار رہتا کہ کب اللہ تعالیٰ اس کی تبدیلی کا حکم دے، بالآخر آپ کی خواہش کے مطابق تبدیلی قبلہ کا حکم آگیا۔ (فتح الباري:651/1) 3۔ تحویل قبلہ کا حکم کس مسجد اور کس نماز میں ہوا؟اس کے متعلق مختلف روایات ہیں: طبقات ابن سعد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی مسجد میں نماز ظہر پڑھا رہے تھے کہ تحویل کعبہ کے متعلق وحی آئی۔ آپ نے دوران نماز ہی میں کعبے کی طرف منہ کرلیا۔یہ بھی کہاجاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن حضرت بشر بن براء ؓ کی والدہ کے ہاں قبیلہ بنو سلمہ میں گئے تو اس نے آپ کے لیے دعوت طعام کا اہتمام کیا، وہیں نماز ظہر کا وقت ہوگیا تو آپ نے بنو سلمہ کی مقامی مسجد ہی میں نماز پڑھنے کا پروگرام بنایا، ابھی دورکعت ہی پڑھی تھیں کہ کعبے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کاحکم آگیا، چنانچہ آپ دوران نماز ہی میں بیت اللہ کی طرف پھرگئے، اس بنا پر مسجد بنو سلمہ کا نام مسجد قبلتین مشہور ہوا، کیونکہ اس مسجد میں ایک ہی نماز دوقبلوں کی طرف منہ کرکے مکمل کی گئی۔ حضرت بشر بن عباد وہاں نماز پڑھ کرعصر کے وقت بنوحارثہ کی مسجد میں گئے تو وہ عصر کی دورکعت پڑھ چکے تھے۔ آپ نے دوران نماز ہی میں نمازیوں کو تبدیلی کعبہ کی اطلاع کردی تو انھوں نے بھی اسی حالت میں قبلے کی طرف منہ کرلیا۔ (فتح الباري:651/1) چونکہ بنو حارثہ مدینے کے اندر ہی آباد تھے، اس لیے انھیں نماز عصر کے وقت اطلاع ہوگئی۔ البتہ اہل قباء جو مدینے کے باہر تھے، کے پاس صبح کی نماز کے دوران میں اطلاع پہنچی۔ انھوں نے بھی دوران نماز ہی میں بیت اللہ کی طرف منہ کرلیا۔ (فتح الباري: 655-656/1)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:"(پہلے) قبلے کی طرف منہ کرو پھر تکبیر تحریمہ کہو۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے اسرائیل بن یونس نے بیان کیا، کہا انھوں نے ابواسحاق سے بیان کیا، کہا انھوں نے حضرت براء بن عازب ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ نے سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں اور رسول ﷺ ( دل سے ) چاہتے تھے کہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں۔ آخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ’’ ہم آپ کا آسمان کی طرف بار بار چہرہ اٹھانا دیکھتے ہیں۔’’پھر آپ نے کعبہ کی طرف منہ کر لیا اور احمقوں نے جو یہودی تھے کہنا شروع کیا کہ انھیں اگلے قبلہ سے کس چیز نے پھیر دیا۔ آپ فر دیجیئے کہ اللہ ہی کی ملکیت ہے مشرق اور مغرب، اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت کر دیتا ہے۔ ‘‘ (جب قبلہ بدلا تو) ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی پھر نماز کے بعد وہ چلا اور انصار کی ایک جماعت پر اس کا گزر ہوا جو عصر کی نماز بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھ رہے تھے۔ اس شخص نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ وہ نماز پڑھی ہے جس میں آپ نے موجودہ قبلہ ( کعبہ ) کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے۔ پھر وہ جماعت ( نماز کی حالت میں ہی ) مڑ گئی اور کعبہ کی طرف منہ کر لیا۔
حدیث حاشیہ:
بیان کرنے والے عبادبن بشرنامی ؓ ایک صحابی تھے اوریہ بنی حارثہ کی مسجد تھی جس کو آج بھی مسجدالقبلتین کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ راقم الحروف کو ایک مرتبہ1951 ءمیں اوردوسری مرتبہ 1962 ءمیں یہ مسجددیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ قباوالوں کو دوسرے دن خبرہوئی تھی وہ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے اورنماز ہی میں کعبہ کی طرف گھوم گئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Bara' bin 'Azib (RA): Allah's Apostle (ﷺ) prayed facing Baitul-Maqdis for sixteen or seventeen months but he loved to face the Ka’bah (at Makkah) so Allah revealed: "Verily, We have seen the turning of your face to the heaven!" (2:144) So the Prophet (ﷺ) faced the Ka’bah and the fools amongst the people namely "the Jews" said, "What has turned them from their Qibla (Bait-ul-Maqdis) which they formerly observed"" (Allah revealed): "Say: 'To Allah belongs the East and the West. He guides whom he will to a straight path'." (2:142) a man prayed with the Prophet (ﷺ) (facing the Ka’bah) and went out. He saw some of the Ansar praying the 'Asr prayer with their faces towards Bait-ul-Maqdis, he said, "I bear witness that I prayed with Allah's Apostle (ﷺ) facing the Ka’bah." So all the people turned their faces towards the Ka’bah.