قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ غَزْوَةِ الرَّجِيعِ، وَرِعْلٍ، وَذَكْوَانَ، وَبِئْرِ مَعُونَةَ، وَحَدِيثِ عَضَلٍ، وَالقَارَةِ، وَعَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ، وَخُبَيْبٍ وَأَصْحَابِهِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ: «أَنَّهَا بَعْدَ أُحُدٍ»

4086. حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي سُفْيَانَ الثَّقَفِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً عَيْنًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ وَهُوَ جَدُّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَانْطَلَقُوا حَتَّى إِذَا كَانَ بَيْنَ عُسْفَانَ وَمَكَّةَ ذُكِرُوا لِحَيٍّ مِنْ هُذَيْلٍ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو لَحْيَانَ فَتَبِعُوهُمْ بِقَرِيبٍ مِنْ مِائَةِ رَامٍ فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ حَتَّى أَتَوْا مَنْزِلًا نَزَلُوهُ فَوَجَدُوا فِيهِ نَوَى تَمْرٍ تَزَوَّدُوهُ مِنْ الْمَدِينَةِ فَقَالُوا هَذَا تَمْرُ يَثْرِبَ فَتَبِعُوا آثَارَهُمْ حَتَّى لَحِقُوهُمْ فَلَمَّا انْتَهَى عَاصِمٌ وَأَصْحَابُهُ لَجَئُوا إِلَى فَدْفَدٍ وَجَاءَ الْقَوْمُ فَأَحَاطُوا بِهِمْ فَقَالُوا لَكُمْ الْعَهْدُ وَالْمِيثَاقُ إِنْ نَزَلْتُمْ إِلَيْنَا أَنْ لَا نَقْتُلَ مِنْكُمْ رَجُلًا فَقَالَ عَاصِمٌ أَمَّا أَنَا فَلَا أَنْزِلُ فِي ذِمَّةِ كَافِرٍ اللَّهُمَّ أَخْبِرْ عَنَّا نَبِيَّكَ فَقَاتَلُوهُمْ حَتَّى قَتَلُوا عَاصِمًا فِي سَبْعَةِ نَفَرٍ بِالنَّبْلِ وَبَقِيَ خُبَيْبٌ وَزَيْدٌ وَرَجُلٌ آخَرُ فَأَعْطَوْهُمْ الْعَهْدَ وَالْمِيثَاقَ فَلَمَّا أَعْطَوْهُمْ الْعَهْدَ وَالْمِيثَاقَ نَزَلُوا إِلَيْهِمْ فَلَمَّا اسْتَمْكَنُوا مِنْهُمْ حَلُّوا أَوْتَارَ قِسِيِّهِمْ فَرَبَطُوهُمْ بِهَا فَقَالَ الرَّجُلُ الثَّالِثُ الَّذِي مَعَهُمَا هَذَا أَوَّلُ الْغَدْرِ فَأَبَى أَنْ يَصْحَبَهُمْ فَجَرَّرُوهُ وَعَالَجُوهُ عَلَى أَنْ يَصْحَبَهُمْ فَلَمْ يَفْعَلْ فَقَتَلُوهُ وَانْطَلَقُوا بِخُبَيْبٍ وَزَيْدٍ حَتَّى بَاعُوهُمَا بِمَكَّةَ فَاشْتَرَى خُبَيْبًا بَنُو الْحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلٍ وَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ قَتَلَ الْحَارِثَ يَوْمَ بَدْرٍ فَمَكَثَ عِنْدَهُمْ أَسِيرًا حَتَّى إِذَا أَجْمَعُوا قَتْلَهُ اسْتَعَارَ مُوسًى مِنْ بَعْضِ بَنَاتِ الْحَارِثِ لِيَسْتَحِدَّ بِهَا فَأَعَارَتْهُ قَالَتْ فَغَفَلْتُ عَنْ صَبِيٍّ لِي فَدَرَجَ إِلَيْهِ حَتَّى أَتَاهُ فَوَضَعَهُ عَلَى فَخِذِهِ فَلَمَّا رَأَيْتُهُ فَزِعْتُ فَزْعَةً عَرَفَ ذَاكَ مِنِّي وَفِي يَدِهِ الْمُوسَى فَقَالَ أَتَخْشَيْنَ أَنْ أَقْتُلَهُ مَا كُنْتُ لِأَفْعَلَ ذَاكِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ وَكَانَتْ تَقُولُ مَا رَأَيْتُ أَسِيرًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ خُبَيْبٍ لَقَدْ رَأَيْتُهُ يَأْكُلُ مِنْ قِطْفِ عِنَبٍ وَمَا بِمَكَّةَ يَوْمَئِذٍ ثَمَرَةٌ وَإِنَّهُ لَمُوثَقٌ فِي الْحَدِيدِ وَمَا كَانَ إِلَّا رِزْقٌ رَزَقَهُ اللَّهُ فَخَرَجُوا بِهِ مِنْ الْحَرَمِ لِيَقْتُلُوهُ فَقَالَ دَعُونِي أُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ لَوْلَا أَنْ تَرَوْا أَنَّ مَا بِي جَزَعٌ مِنْ الْمَوْتِ لَزِدْتُ فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ سَنَّ الرَّكْعَتَيْنِ عِنْدَ الْقَتْلِ هُوَ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا ثُمَّ قَالَ مَا أُبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَى أَيِّ شِقٍّ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَشَأْ يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ ثُمَّ قَامَ إِلَيْهِ عُقبَةُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَتَلَهُ وَبَعَثَتْ قُرَيْشٌ إِلَى عَاصِمٍ لِيُؤْتَوْا بِشَيْءٍ مِنْ جَسَدِهِ يَعْرِفُونَهُ وَكَانَ عَاصِمٌ قَتَلَ عَظِيمًا مِنْ عُظَمَائِهِمْ يَوْمَ بَدْرٍ فَبَعَثَ اللَّهُ عَلَيْهِ مِثْلَ الظُّلَّةِ مِنْ الدَّبْرِ فَحَمَتْهُ مِنْ رُسُلِهِمْ فَلَمْ يَقْدِرُوا مِنْهُ عَلَى شَيْءٍ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

 ابن اسحاق نے بیان کیا کہ ہم سے عاصم بن عمر نے بیان کیا کہ غزوئہ رجیع غزوہ احد کے بعد پیش آیا۔رجیع ایک مقام کا نام ہے ہذیل کی بستیوں میں سے یہ غزوہ صفر4ھ میں جنگ احدکے بعد ہوا تھا بیئرمعونہ اور عسفان کے درمیان ایک مقام ہے وہاں قاری صحابہ کو رعل اور ذکوان قبائل نے دھوکہ سے شہید کر دیا تھا عضل اور قارہ بھی عرب کے دو قبائل کے نام ہیں ان کا قصہ غزوۂ رجیع میں ہوا۔

4086.

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک فوجی دستہ جاسوسی کے لیے روانہ کیا اور حضرت عاصم بن ثابت ؓ کو ان پر امیر مقرر فرمایا جو عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا تھے۔ یہ حضرات چل پڑے حتی کہ عسفان اور مکہ کے درمیان پہنچے تو ہذیل کے ایک قبیلہ بنو لحیان کو ان کی خبر دی گئی، چنانچہ ان کے تقریبا ایک سو تیر انداز، مجاہدین کے تعاقب میں گئے۔ ان کے نقش قدم پر چلتے چلتے وہ لوگ ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں مجاہدین نے پڑاؤں کیا تھا۔ وہاں انہیں کھجوروں کی گٹھلیاں ملیں جو وہ مدینہ منورہ سے توشہ کے طور پر لائے تھے۔ مشرکین کہنے لگے: یہ تو یثرب کی کھجوریں ہیں، چنانچہ انہوں نے ان کے قدموں کے نشانات پر ان کا پیچھا کیا تو مجاہدین کو جا لیا۔ جب حضرت عاصم ؓ اور ان کے ساتھی چلنے سے عاجز آ گئے تو انہوں نے ایک اونچے ٹیلے پر پناہ لی۔ مشرکین آئے اور ان کا گھیراؤ کر لیا اور ان سے کہا: ہمارا تم سے عہد و میثاق ہے۔ اگر تم نیچے اتر آؤ تو ہم تم میں سے کسی کو قتل نہیں کریں گے۔ (امیر لشکر) حضرت عاصم ؓ نے کہا: میں تو کسی کافر کے عہد پر نیچے نہیں اتروں گا۔ انہوں نے دعا مانگی: اے اللہ! ہماری طرف سے اپنے نبی کو اطلاع کر دے، چنانچہ انہوں نے مجاہدین سے لڑائی شروع کی اور انہیں تیر مارنے لگے یہاں تک کہ انہوں نے حضرت عاصم ؓ سمیت سات آدمیوں کو تیر مار مار کر شہید کر دیا۔ اب صرف تین آدمی حضرت خبیب، حضرت زید ؓ اور ایک تیسرا شخص باقی رہ گیا۔ مشرکین نے ان تینوں کو عہد و پیمان دیا۔ وہ ان پر اعتبار کرتے ہوئے نیچے اتر آئے۔ جب مشرکین نے ان پر قابو پا لیا تو ان کی کمانوں کی تانتوں سے انہیں باندھ دیا۔ تیسرے شخص نے کہا، جو ان کے ساتھ تھا۔ یہ پہلا دھوکا ہے اور اس نے کفار کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے اسے کھینچا اور ساتھ لے جانے کی کوشش کی لیکن وہ ساتھ نہ گیا تو اس کو بھی قتل کر دیا گیا۔ وہ خبیب اور زید ؓ کو ساتھ لے گئے اور مکہ میں ان دونوں کو فروخت کر دیا۔ حضرت خبیب ؓ کو حارث بن عامر بن نوفل کے بیٹوں نے خرید لیا کیونکہ حضرت خبیب ؓ نے ان کے باپ حارث کو بدر کے دن قتل کیا تھا۔ وہ ان کے پاس چند روز قیدی بن کر رہے حتی کہ انہوں نے خبیب ؓ کو قتل کرنے پر اتفاق کر لیا۔ اس دوران میں حضرت خبیب ؓ نے حارث کی بیٹی سے استرا مانگا تاکہ زیر ناف بال صاف کر لیں تو اس نے استرا دے دیا۔ اس کا بیان ہے کہ میں اپنے بچے سے غافل ہو گئی حتی کہ وہ چلتے چلتے حضرت خبیب ؓ کے پاس پہنچ گیا۔ حضرت خبیب ؓ نے اسے اپنی ران پر بٹھا لیا۔ جب میں نے بچے کو اس حالت میں دیکھا تو بہت گھبرائی۔ میری گھبراہٹ کا اندازہ حضرت خبیب ؓ نے بھی کر لیا جبکہ استرا ان کے ہاتھ میں تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا: کیا تمہیں اندیشہ ہے کہ میں اسے قتل کر دوں گا؟ میں، ان شاءاللہ، ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔ حارث کی بیٹی کہا کرتی تھی: میں نے خبیب سے بڑھ کر اچھا کبھی کوئی قیدی نہیں دیکھا۔ میں نے انہیں دیکھا کہ وہ خوشہ انگور سے کھا رہے تھے، حالانکہ مکے میں اس وقت کوئی پھل نہ تھا جبکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ وہ صرف اللہ کا رزق تھا جو اللہ نے انہیں دیا تھا۔ بہرحال مشرکین حضرت خبیب ؓ کو لے کر حرم سے باہر نکلے تاکہ انہیں قتل کریں تو انہوں نے کہا: مجھے چھوڑ دو میں دو رکعتیں پڑھ لوں۔ نماز سے فراغت کے بعد وہ جلدی سے ان کی طرف گئے اور کہنے لگے: اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم میرے متعلق گھبرا جانے کا گمان کرو گے تو میں اور زیادہ نماز پڑھتا۔ یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے قتل کے وقت دو رکعت نماز پڑھنے کا طریقہ جاری کیا۔ پھر انہوں نے دعا مانگی: اے اللہ! انہیں گن گن کر ہلاک کر، پھر یہ شعر پڑھے: ’’جب میں بحالت اسلام قتل ہو رہا ہوں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اللہ کے لیے میں کس پہلو پر گروں گا۔ میرا شہید ہونا اللہ کی رضا کے لیے ہے، اگر وہ چاہے تو میرے بریدہ (کٹے پھٹے) جسم کے ٹکڑوں پر برکت ڈال دے۔‘‘ پھر حارث کا بیٹا عقبہ آگے بڑھا اور اس نے انہیں قتل کر دیا۔ دوسری طرف کفار قریش نے حضرت عاصم ؓ کی طرف کچھ آدمی بھیجے تاکہ ان کے بدن کا کوئی حصہ لے آئیں جس سے وہ انہیں پہچان سکیں۔ دراصل حضرت عاصم ؓ نے بھی بدر کی لڑائی میں قریش کے ایک بڑے سردار کو قتل کیا تھا۔ اللہ تعالٰی نے شہد کی مکھیوں کا ایک چھتا بھیج دیا جس نے قاصدوں کی دست برد سے حضرت عاصم ؓ کی حفاظت کر، چنانچہ وہ حضرت عاصم ؓ کی لاش سے کوئی عضو حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔