تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے بنوقریظہ کا محاصرہ کرنے سے پہلے حضرت علی ؓ اور حضرت زبیر بن عوام ؓ کو پیش قدمی کے طور پر روانہ فرمایا، پھر آپ نے خودان پر فوج کشی کی۔ پچیس دن کے محاصرے کے بعد انھوں نے خود کو رسول اللہ ﷺ کے حوالے کردیا کہ آپ جو مناسب خیال کریں، فیصلہ فرمائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے محمد بن مسیلمہ ؓ کی زیرنگرانی ان سب کے ہاتھ باندھ دیے، عورتوں اور بچوں کو مردوں سے الگ کردیا۔ پھرآپ ﷺ نے قبیلہ اوس کی درخواست پر ان کا فیصلہ حضرت سعد بن معاذ ؓ کے حوالے کردیا۔ حضرت سعد ؓ کا فیصلہ انتہائی عدل وانصاف پرمبنی تھا، چنانچہ انھیں مدینہ لاکر بنو نجار کی ایک عورت کے گھر میں قید کردیا۔ پھر جب ان کے قتل کا وقت آپہنچا تو مدینہ طیبہ میں نالیاں کھودی گئیں جو ان کے خون سے بھر گئیں۔ اس طرح ان دغا بازوں کی گردنیں اُڑائی گئیں اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا گیا۔ ان میں سے ریحانہ بنت عمرو کو آپ نے اپنے لیے منتخب فرمایا اور باقی قیدیوں کو نجد کے علاقے میں فروخت کرکےان کے عوض ہتھیار خرید لیے۔ اس کارروائی کے ذریعے سے غدر وخیانت کے ان سانپوں کا مکمل طور پر صفایا ہوگیا جو مسلمانوں کے لیے سوہانِ روح بنے ہوئے تھے اور انھوں نے مسلمانوں کے کے خاتمے کے لیے اپنی تمام ترتوانائیاں صرف کررکھی تھیں۔ بنوقریظہ کی اس تباہی کے ساتھ ہی بنونضیر کا ایک شیطان اور جنگ احزاب کا ایک بڑا مجرم حی بن اخطب بھی اپنے کیفرکردار کو پہنچ گیا۔ یہ شخص حضرت صفیہ ؓ کا باپ تھا۔
2۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ حکم تھا کہ جسے زیر ناف بال آچکے ہوں اسے قتل کردیا جائے۔ چونکہ حضرت عطیہ قرظی کو ابھی بال نہیں آئے تھے لہذا انھیں زندہ چھوڑدیا گیا، چنانچہ وہ مسلمان ہوکر شرف صحابیت سے مشرف ہوئے۔ اسی طرح حضرت رفاعہ کو بھی بنو نجار کی ایک خاتون سلمیٰ بنت قیس ؓ کی درخواست پر انھیں ہبہ کردیا گیا۔ وہ بھی شرف اسلام سے مشرف ہوئے۔ چند اور افراد نے بھی ہتھیار ڈالنے کی کارروائی سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا، لہذا ان کی جان اورمال، نیز ان کی اولاد بھی محفوظ رہی۔ بنوقریظہ کے اموال کو رسول اللہ ﷺ نے خمس نکال کر مجاہدین میں تقسیم کردیا۔ جس کے پاس گھوڑا تھا اسے تین حصے اور جو پیدل تھا اسے ایک حصہ دیا گیا۔
3۔ یہ غزوہ ذی القعدہ میں پیش آیا اور پچیس روز تک ان کا محاصرہ رہا۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ احزاب میں اس کے متعلق آیات نازل فرمائیں اور اس کی اہم جزئیات کا ذکر کیا۔ دشمن کے مختلف گروہوں میں پھوٹ اور ان کی پست ہمتی پر تبصرہ فرمایا۔