تشریح:
1۔ صلاۃ خوف کے متعلق امام بخاری ؒ نے مختلف روایات پیش کی ہیں۔ اس سے مقصود صلاۃ خوف کے متعلق جو اختلاف ہے اسے بیان کرنا ہے کہ پہلے پہلے اسے کس مقام پر ادا کیا گیا۔ اس بات پر اتفاق ہے کہ غزوہ خندق کے وقت صلاۃ خوف کا حکم نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جنگی مصروفیات کی وجہ سے صلاۃ وسطیٰ، یعنی نماز عصر کوترک فرمایا، حالانکہ اس کی حفاظت کے متعلق قرآن کریم میں خصوصی حکم ہے۔ غزوہ خندق میں ایک ایسا موقع بھی آیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہر،عصراور مغرب کو عشاء کے وقت ادا کیا۔ اہل سیر نے بیان کیا ہے کہ صلاۃ خوف کا حکم غزوہ ذات الرقاع میں ہوا۔ بعض نے غزوہ عسفان میں بیان کیا ہے اور بعض غزوہ ذی قرد کے موقع پر اس کے حکم کے قائل ہیں۔ ان مختلف روایات میں جمع کی یہی صورت ممکن ہے کہ اس کے متعلق اولیت کی قید نہ لگائی جائے۔ صرف یہ کہا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ ذات الرقاع، غزوہ ذی قرد اور غزوہ عسفان وغیرہ میں صلوۃ خوف ادا فرمائی ہے۔ واللہ اعلم۔
2۔ عرب کے بدو جوصحرائے نجد میں خیمہ زن تھے اور وہ رہ رہ کر لوٹ مار کی کارروائیاں کرتے رہتے تھے، چونکہ یہ لوگ کسی آبادی یا شہر کے باشندے نہ تھے اور ان کا قیام مکانات اور قلعوں میں نہ تھا، اس لیے اہل مکہ اور باشندگان خیبر کی طرح ان پر پوری طرح قابو پالینا اور ان کے شروفساد کو ختم کرنا بہت مشکل تھا۔ ان کے حق میں خوف زدہ کرنے والی تادیبی کارروائیاں ہی مفید ہوسکتی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ اطلاع ملی کہ قبیلہ انمار یا بنو غطفان کی دوشاخیں، بنوثعلبہ اور بنو محارب، مسلمانوں کے خلاف جمع ہورہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ ان کی خبر سنتے ہی اپنے صحابہ کرام ؓ کو ساتھ لے کر بلاد نجد کا رخ کیا، پھر مدینے سے دو دن کے فاصلے پر مقام نخل پر پہنچ کر بنوغطفان کے ایک گروہ سے سامنا ہوا لیکن جنگ نہ ہوئی۔ البتہ خطرہ ضرور تھا، اسی موقع پر صلاۃ خوف ادا فرمائی۔ ان بدوؤں پر رعب ودبدبہ قائم کرنے اور انھیں منتشر کرنے کی غرض سے آپ ﷺ نے جو تادیبی حملہ کیا اسے غزوات ذات الرقاع کا نام دیا جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔