تشریح:
1۔ اس حدیث پر منکرین حدیث کی طرف سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ بقول واقدی حضرت ام رومان ؓ کا انتقال چار یا پانچ ہجری میں ہو چکا تھا اور حضرت مسروق صحابی نہیں ہیں کیونکہ وہ یمن سے آپ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر ؓ یا حضرت عمر ؓ کےکے دور خلافت میں آئے لہٰذا اس روایت میں انقطاع ہے۔ لیکن واقدی کا قول اس لیے قابل اعتبار نہیں کہ احادیث میں اس کی تردید موجود ہے کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ پر آیت تخبیر نازل ہوئی تو آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا: ’’میں تجھ پر ایک معاملہ پیش کرتا ہوں اپنے والدین حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت ام رومان ؓ سے مشورہ کر کے جواب دینا۔‘‘ (مسند أحمد:212/5) اور آیت تخبیرنو ہجری میں نازل ہوئی تھی اس کا مطلب یہ ہے کہ نو ہجری تک حضرت اُم رومان ؓ کا زندہ رہنا احادیث سے ثابت ہے نیز صحیح بخاری کی روایت بھی قول واقدی کے معارض ہے۔
2۔ ابراہیم حربی نے یقین سے کہا ہے کہ مسروق کا سماع اُم رومان ؓ سے ثابت ہے اور وہ سماع کے وقت پندرہ برس کے تھے، اس کے علاوہ ابو نعیم اصفہانی نے کہا: اُم رومان ؓ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد زندہ ہیں لہٰذا مذکورہ روایت متصل اور صحیح ہے۔ (فتح الباري:546/7)