تشریح:
1۔ عکل اور عرینہ کے لوگوں نے دل سے اسلام قبول نہیں کیا تھا بلکہ تکلیف کے ساتھ اظہار اسلام کیا جیسا کہ روایت کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے۔ ان کی تعداد آٹھ تھی۔ (صحیح البخاري، الدیات، حدیث:6899) جب وہ اونٹ لے کر بھاگنے لگے تو چرواہےنے مزاحمت کی، اس پر انھوں نے اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ ڈالے اور یہی وجہ ہے کہ ان ڈاکوؤں کے ساتھ بطور قصاص ہی کچھ کیا گیا جو انھوں نے چرواہے کے ساتھ کیا تھا۔ جب وہ مدینہ طیبہ میں آئے تو مرض استقاء میں مبتلا ہو گئےرسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پینے کا نسخہ تجویز کیا۔ جب وہ تندرست ہو گئے تو انھوں نے مذکورہ گھناؤنی واردات کا ارتکاب کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے تقریباً بیس انصاری نوجوانوں کو ان کے تعاقب میں بھیجا اور ان کے ساتھ ایک کھوجی بھی روانہ کیا۔ (صحیح مسلم، القسامة والحاربین، حدیث:4353) حافظ ابن قیم ؒ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ میں بددعا فرمائی: ’’اے اللہ !عریینوں پر راستہ اندھا کردے اور اسے کنگن سے بھی زیادہ تنگ بنا دے ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی چنانچہ ان پر راستہ تنگ ہو گیا۔ (زاد المعاد:286/3)