تشریح:
1۔ کسی عورت سے ایک مقررہ مدت تک نکاح کرلینے کو متعہ کہتے ہیں۔ پہلے یہ نکاح جائز تھا، پھر اس سے قیامت تک کے لیے روک دیاگیا جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے، نیز حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ اوطاس کے موقع پر تین روز کے لیے نکاح متعہ کی اجازت دی پھر اس سے منع کردیا۔
2۔ حضرت سبرہ بن معبد جہنی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے تمھیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی، اب اسے اللہ تعالیٰ نے روز قیامت تک حرام کردیا ہے ۔‘‘ (مسند أحمد:55/4) رخصت کے بعد چھ مختلف مقامات پر نکاح متعہ کا منسوخ ہوجانا مروی ہے۔ وہ مقام حسب ذیل ہیں:1۔ خیبر۔ 2۔ عمرۃ القضاء۔ 3۔ فتح مکہ۔ 4۔ سال اوطاس۔ 5۔ غزوہ تبوک۔ 6۔ حجۃ الوداع۔ 2۔ علامہ نووی ؒ لکھتے ہیں کہ متعہ دومرتبہ حرام ہوا، اور دو مرتبہ ہی جائز ہوا، چنانچہ یہ غزوہ خیبر سے پہلے حلال تھا، پھر اسے غزوہ خیبر کے موقع پر حرام کردیا گیا، پھر اسے فتح مکہ کے موقع پر مباح کردیا گیا، عام اوطاس بھی اسے ہی کہتے ہیں۔ اس کے بعد ہمیشہ کے لیے حرام کردی گیا (مسند أحمد:405/3)
3۔ متعہ کی حدیث پر مسلمانوں کا اجماع ہے البتہ بعض شیعہ اس کی حلت کے قائل وفاعل ہیں۔ واللہ اعلم۔