تشریح:
1۔ اس حدیث میں فتح مکہ کے وقت پیش آنے والے ایک واقعے کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ اسی مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں بیان کیا ہے۔ 2۔اس حدیث سے ایک اسلامی قانون کا اثبات ہوتا ہے کہ بچہ جس بستر پر پیدا ہو وہ بستر والے کا تسلیم کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں زانی کے دعوی کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے اسے سنگسارکیا جائےگا۔ اس قانون کی وسعت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بہت سی برائیوں کا سد باب ہو گیا بصورت دیگر زنا کار جس بچے کے متعلق بھی اقرار کرتا اسے حق نسب دے دیا جاتا۔ اس سے بد کاری اور بے حیائی کا دروازہ بھی کھلتا ہے اس لیے اسلام نے زانی کے دعوے کوکوئی حیثیت نہیں دی۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک طرف شریعت کی پاسداری کی تو دوسری طرف احتیاط کے پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا، چنانچہ حضرت سودہ ؓ سے فرمایا:"تونے اس بچے سے پردہ کرنا ہے۔" حضرت سودہ ؓ نے اس حدیث پرعمل کیا اور زندگی بھر اس بچے کو نہیں دیکھا چنانچہ ایک دوسری حدیث میں اس کی وضاحت ہے کہ حضرت سودہ بنت زمعہ ؓ جب تک زندہ رہیں، اس کے سامنے نہیں آئیں۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2053۔)