قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات و شمائل

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ غَزْوَةِ أَوْطَاسٍ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

4323. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا فَرَغَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حُنَيْنٍ بَعَثَ أَبَا عَامِرٍ عَلَى جَيْشٍ إِلَى أَوْطَاسٍ فَلَقِيَ دُرَيْدَ بْنَ الصِّمَّةِ فَقُتِلَ دُرَيْدٌ وَهَزَمَ اللَّهُ أَصْحَابَهُ قَالَ أَبُو مُوسَى وَبَعَثَنِي مَعَ أَبِي عَامِرٍ فَرُمِيَ أَبُو عَامِرٍ فِي رُكْبَتِهِ رَمَاهُ جُشَمِيٌّ بِسَهْمٍ فَأَثْبَتَهُ فِي رُكْبَتِهِ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ يَا عَمِّ مَنْ رَمَاكَ فَأَشَارَ إِلَى أَبِي مُوسَى فَقَالَ ذَاكَ قَاتِلِي الَّذِي رَمَانِي فَقَصَدْتُ لَهُ فَلَحِقْتُهُ فَلَمَّا رَآنِي وَلَّى فَاتَّبَعْتُهُ وَجَعَلْتُ أَقُولُ لَهُ أَلَا تَسْتَحْيِي أَلَا تَثْبُتُ فَكَفَّ فَاخْتَلَفْنَا ضَرْبَتَيْنِ بِالسَّيْفِ فَقَتَلْتُهُ ثُمَّ قُلْتُ لِأَبِي عَامِرٍ قَتَلَ اللَّهُ صَاحِبَكَ قَالَ فَانْزِعْ هَذَا السَّهْمَ فَنَزَعْتُهُ فَنَزَا مِنْهُ الْمَاءُ قَالَ يَا ابْنَ أَخِي أَقْرِئْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّلَامَ وَقُلْ لَهُ اسْتَغْفِرْ لِي وَاسْتَخْلَفَنِي أَبُو عَامِرٍ عَلَى النَّاسِ فَمَكُثَ يَسِيرًا ثُمَّ مَاتَ فَرَجَعْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِهِ عَلَى سَرِيرٍ مُرْمَلٍ وَعَلَيْهِ فِرَاشٌ قَدْ أَثَّرَ رِمَالُ السَّرِيرِ بِظَهْرِهِ وَجَنْبَيْهِ فَأَخْبَرْتُهُ بِخَبَرِنَا وَخَبَرِ أَبِي عَامِرٍ وَقَالَ قُلْ لَهُ اسْتَغْفِرْ لِي فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ وَرَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَوْقَ كَثِيرٍ مِنْ خَلْقِكَ مِنْ النَّاسِ فَقُلْتُ وَلِي فَاسْتَغْفِرْ فَقَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ذَنْبَهُ وَأَدْخِلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُدْخَلًا كَرِيمًا قَالَ أَبُو بُرْدَةَ إِحْدَاهُمَا لِأَبِي عَامِرٍ وَالْأُخْرَى لِأَبِي مُوسَى

مترجم:

4323.

حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ غزوہ حنین سے فارغ ہوئے تو حضرت ابو عامر ؓ کو سپہ سالار بنا کر ایک لشکر کے ہمراہ اوطاس کی طرف روانہ کیا جو وہاں پہنچ کر درید بن صمہ سے نبرد آز ہوئے۔ درید تو جنگ میں مارا گیا اور اللہ تعالٰی نے اس کے ساتھیوں کو شکست سے دوچار کر دیا۔ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے مجھے بھی ابو عامر ؓ کے ہمراہ روانہ کیا تھا۔ حضرت ابو عامر ؓ کے گھٹنے میں ایک جثمی آدمی نے تیر مارا جو کہ وہاں پیوست ہو کر رہ گیا۔ میں حضرت ابو عامر ؓ کے پاس گیا اور ان سے پوچھا: چچا جان! آپ کو کس نے تیر مارا ہے؟ انہوں نے ابو موسٰی اشعری کو اشارے سے بتایا کہ وہ میرا قاتل ہے جس نے مجھے تیر مارا ہے۔ میں دوڑ کر اس کے پاس جا پہنچا مگر جب اس نے مجھے دیکھا تو بھاگ نکلا۔ میں اس کے پیچھے ہو لیا اور کہنے لگا کہ تجھے شرم نہیں آتی اب تو ٹھہرتا کیوں نہیں ہے؟ آخر وہ رک گیا۔ پھر میرے اور اس کے درمیان تلوار کے دو وار ہوئے۔ بالآخر میں نے اسے مار ڈالا۔ پھر واپس آ کر میں نے ابو عامر ؓ سے کہا کہ اللہ تعالٰی نے تمہارے قاتل کو ہلاک کر دیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اب یہ تیر نکالو۔ میں نے تیر نکالا تو زخم سے پانی بہنے لگا۔ انہوں نے مجھے فرمایا: بھتیجے! نبی ﷺ کو میری طرف سے سلام عرض کرنا اور آپ سے کہنا کہ میرے لیے بخشش کی دعا فرمائیں۔ پھر ابو عامر ؓ نے مجھے اپنی جگہ لوگوں کا سپہ سالار مقرر کیا، چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد وہ انتقال کر گئے۔ میں واپس آ کر نبی ﷺ کی خدمت میں آپ کے گھر حاضر ہوا۔ اس وقت آپ بان سے بنی ہوئی چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے جس پر ہلکا سا بستر تھا۔ چار پائی کی رسیوں کے نشانات آپ کے پہلو اور پشت پر پڑ گئے تھے۔ میں نے آپ سے تمام حالات بیان کیے اور حضرت ابو عامر ؓ کی شہادت کا واقعہ بھی بیان کیا اوران کی دعائے مغفرت کی درخواست بھی پیش کی۔ آپ نے پانی منگوایا، وضو کرنے کے بعد ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی: ’’اے اللہ! عبید، یعنی ابو عامر ؓ کو بخش دے۔‘‘ اس وقت میں آپ کی بغلوں کی سفیدی کو دیکھ رہا تھا۔ آپ نے پھر فرمایا:’’اے اللہ! اسے قیامت کے دن انسانوں میں سے اکثر پر برتری عطا فرما۔‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے لیے بھی مغفرت کی دعا فرمائیں۔ آپ نے دعا کی: ’’اے اللہ! عبداللہ بن قیس کے گناہ بخش دے اور روز قیامت اسے مقام عزت عطا فرما۔‘‘ (راوی حدیث) ابو بردہ نے کہا کہ ان میں سے ایک دعا ابو عامر ؓ کے لیے اور دوسری ابو موسٰی اشعری ؓ کے لیے تھی۔